راجستھان میں اردو کی جگہ سنسکرت پڑھانے کا فرمان،ارد و اساتذہ کی شدید مخالفت

ریاست میں حکومت پر اردو تعلیم کے تئیں امتیازی رویہ اپنانے کا الزام 

 

نئی دہلی ،18 فروری :۔

راجستھان کی بی جے پی حکومت   مسلسل اردو کے خلاف احکامات نافذ کر رہی ہے۔پولیس محکمہ میں اردو الفاظ کو سنسکرت سے تبدیل کرنے کا معاملہ گزشتہ دنوں تنازعہ کا سبب بن چکا ہے اب ریاستی حکومت نے ریاست کے سرکاری اسکولوں میں اردو کی جگہ سنسکرت کو تیسری زبان کے طور پر متعارف کرانے کا حکم جاری کر دیا ہے، جس پر اساتذہ اور سماجی تنظیموں کی جانب سے مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ اس فیصلے کے تحت، وہ اسکول جہاں اردو پڑھنے والے طلبہ نہیں ہیں، وہاں اب سنسکرت کو پڑھایا جائے گا۔

ریاست کے محکمہ ثانوی تعلیم نے بیکانیر کے ناپاسر گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول میں اردو ادب کی جگہ سنسکرت ادب کو شامل کرنے کا حکم جاری کیا ہے، جو اپریل 2025 سے نافذ العمل ہوگا۔ اس سے قبل جے پور کے مہاتما گاندھی سیکنڈری اسکول اور کئی دیگر اسکولوں میں بھی ایسے ہی احکامات دیے جا چکے ہیں۔

محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر آشیش مودی نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ جن اسکولوں میں اردو پڑھنے والے طلبہ نہیں ہیں یا دلچسپی نہیں رکھتے، وہاں سنسکرت کو متبادل کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے۔ انہوں نے بیکانیر کے ناپاسر اسکول کی مثال دی، جہاں صرف ایک طالب علم اردو پڑھ رہا تھا، جو اب بارہویں کلاس مکمل کر کے کالج جا رہا ہے۔ ان کے مطابق، چونکہ وہاں مزید کوئی اردو پڑھنے والا نہیں ہے، اس لیے اردو کی جگہ سنسکرت کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ریاستی محکمہ تعلیم کے احکامات کی بات کریں تو پہلا حکم جے پور کے گھاٹ گیٹ علاقے کے ایک اسکول کے لیے ہے، جب کہ دوسرا حکم بیکانیر ضلع کے سنتھل کے سرکاری اسکول ناپاسر میں اردو ادب کی جگہ سنسکرت ادب کو اختیاری مضمون کے طور پر شروع کرنے کی منظوری سے متعلق ہے۔ اب ریاست میں حکومت پر اردو تعلیم کے تئیں امتیازی رویہ اپنانے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

اردو تعلیم سے وابستہ لوگوں نے بھی وزیر تعلیم مدن دلاور کی ہدایت پر جاری کردہ احکامات کی مخالفت شروع کردی ہے۔ ان لوگوں نے اردو تعلیم کے حوالے سے حکومت کی نیتوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت ایک ایک کرکے تمام اسکولوں میں اردو کے بجائے سنسکرت پڑھانا شروع کرنے جارہی ہے۔ اردو تعلیم سے وابستہ لوگ الزام لگا رہے ہیں کہ اردو کو روکنا اور سنسکرت کو مسلط کرنا غلط ہے۔

مدرسہ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے ریاستی صدر امین قائم خانی نے کہا کہ جے پور کے آر اے سی بٹالین مہاتما گاندھی اسکول میں 127 طلبہ اردو پڑھ رہے ہیں اور صرف 17 طلبہ سنسکرت کو تیسری زبان کے طور پر پڑھ رہے ہیں، لیکن وزیر تعلیم مدن دلاور کے حوالے سے ثانوی تعلیم کے ڈائریکٹر نے حکم جاری کیا ہے اور جے پور کی جانب سے اردو، سیکنڈری ایجوکیشن آفیسر کو ایک خط لکھا گیا ہے اور اردو کو پڑھانے کو روکنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ یہ حکم قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔ حکومت فوری طور پر یہ حکم واپس لے۔

اس فیصلے کے خلاف مختلف سماجی تنظیموں اور اردو کے اساتذہ نے احتجاج کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اردو کو اسکولوں سے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو ریاست میں لسانی تنوع کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اساتذہ نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حکومت شعوری طور پر اردو کو کمزور کر رہی ہے اور سنسکرت کو زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اردو کے معاملے پر تنازع کھڑا ہوا ہو۔ اس سے قبل بھی بی جے پی حکومت کے دور میں اردو کو نصاب سے نکالنے یا اس کی حیثیت کمزور کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

اساتذہ اور اردو تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی تعلیمی بہتری چاہتی ہے تو اسے اردو کو بھی باقی رکھنے دینا چاہیے اور طلبہ کو اپنی پسند کی زبان منتخب کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔