راجستھان: شدت پسندوں نے مسجد میں لگائی آگ ، پولیس کی موجودگی میں مذہبی کتابیں اور چٹائیاں نذر آتش کرنے کا الزام
الور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 4 ملزمان کو گرفتار کر لیا،قرآن اور مذہبی کتابیں نذر آتش کرنے کے الزامات کی تردید
نئی دہلی ،22جون :۔
راجستھان میں دن بدن نفرت کی آگ مزید پھیلتی جا رہی ہے ،مسلمانوں کے خلاف کھلے عام شدت پسند ہندو تنظیمیں اشتعال انگیز بیان جاری کر رہی ہیں ، دلتوں اور مسلمانوں کو نفرت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان تمام معاملات پر گہلوت حکومت کی عدم سنجیدگی نے شر پسندوں کے حوصلے بلند کر دیئے ہیں ۔
تازہ ترین معاملہ الور کے بہادر پور میں پہاڑی پر واقع شیخ جمال مسجد سے متعلق ہے جہاں پولیس کی موجودگی میں شدت پسندوں نے مسجد کا گیٹ توڑ دیا اور اس کے کچھ حصے کو آگ لگا دی۔الزام ہے کہ آگ لگنے سے مسجد میں رکھی قرآن پاک اور دیگر مذہبی کتابیں بھی جل گئیں، اس کے علاوہ کچھ چٹائیاں بھی جل گئیں۔رپورٹس کے مطابق، رمن گلاٹی، بھاویک جوشی، رگھویر سینی، منوہر لال، گردھاری لال جوشی، اوتار سنگھ، سردار رتنا سینی، بابو لال اور کئی دوسرے لوگوں نے اس پورے واقعے کو انجام دیا ہے۔
اس سلسلے میں وقف کمیٹی بہادر پور الور نے وزیر اعلیٰ کے نام ایک خط بھی لکھا ہے جس میں اس واقعہ کی شکایت کی گئی ہے ۔لیٹر میں تحریر ہے کہ گرام بہادر پور پٹی پہاڑی پر اپر مسجد ہے جس میں مسلمان پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں 20-06-2023 کو تقریباً تین بجے رمن گلاٹی،بھوک جوشی، رگھویر سینی ،منوہر لال،گردھاری لال جوشی، اوتار سنگھ سردار، رتن سینی ،بابو لال ولد کیشو سینی اور پہاڑی سے تقریبا 20 شر پسندوں نے جا کر پہاڑی مسجد کو نقصان پہنچایا اور اس میں رکھے مصلے ،چٹائی اور قرآن کو آگ لگا دی ،مسجد کے گیٹ توڑ دیئے ۔خط میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ صدر کوتوال کی موجودگی اور بہادر پولیس چوکی انچارج کی موجودگی میں آگ لگائی گئی ۔
اس معاملے پر الور پولیس کا کہنا ہے کہ بہادر پور میں پہاڑی پر واقع مسجد میں نئے تعمیراتی تنازعہ کے سلسلے میں کچھ سماج دشمن عناصر نے لوہے کے گیٹ کو ہٹا کر ایک چٹائی کو جلا دیا ہے۔قرآن پاک جلائے جانے کی خبر غلط ہے ۔ ایف آئی آر درج کر کے 4 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، پولیس فورس تعینات ہے، امن قائم ہے۔