راجستھان:   اردو میڈیم اسکولوں کو ہندی میڈیم میں تبدیل کرنے پرمسلمانوں میں شدید غم و غصہ

اجمیر میں مسلم اکثریتی علاقوں میں واقع 8 اردو میڈیم اسکولوں کو ہندی میں تبدیل کر دیا گیا،مقامی مسلمانوں کا فیصلے کے خلاف احتجاج،ضلع کلکٹر کو میمو رینڈم

نئی دہلی ،23 جنوری :۔

راجستھان کی بی جے پی حکومت مسلسل اردو اور مسلم مخالف اقدامات میں سر گرم ہے۔حالیہ دنوں میں متعد د اردو اداروں اور قدیم ہوٹل کے نام تبدیل کئے گئے اور اسے بھارتی ثقافتی روایت سے تعبیر کیا گیا وہیں اب آٹھ اردو میڈیم اسکولوں کو ہندی میڈیم  میں تبدیل  کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ راجستان حکومت کے اس فیصلے نے مقامی مسلمانوں میں بڑ ے پیمانے  غم و غصہ کو جنم دیا ہے۔مسلمانوں میں شدید تشویش ہے اور اس فیصلے کے خلاف انہوں نے احتجاج کیا۔مقامی مسلمانوں نے حکومت کے اس اقدان کو اپنی لسانی اور ثقافتی ورثے کے لیے ایک خطرہ قرار دیا ہے۔

متاثرہ اسکول، بشمول گورنمنٹ پرائمری اردو اسکول بادباو اور گورنمنٹ گرلز ہائی پرائمری اردو اسکول اندرکوٹ، جو کہ راجستھان کے اجمیر میں واقع درگاہ علاقے جیسے مسلم اکثریتی علاقوں میں واقع ہیں۔اس میں تقریباً 300 طالب  علم زیر تعلیم ہیں اور یہ دونوں ادارے 1941 سے اردو میں اقلیتی برادری کو تعلیم فراہم  کر رہے ہیں۔

اردو میڈیم اسکولوں کو ہندی میڈیم میں انضمام سے سب سے زیادہ لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہوگی۔ لوگوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے ۔

متاثرہ اسکولوں میں سے ایک، صرف لڑکیوں  کا  ادارہ ہے،  جسے ایک کو   ہندی میڈیم اسکول  میں انضمام کر دیا گیا  ہے۔ مقامی باشندوں کو خدشہ ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کو مخلوط صنفی ماحول میں بھیجنے میں ہچکچاتے ہیں، جس سے علاقے میں لڑکیوں کے لیے تعلیمی مواقع ممکنہ طور پر کم ہو سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں مقامی باشندوں شدید تشویش ہے ۔کانگریس پارٹی کے اقلیتی ونگ کے ریاستی جنرل سکریٹری ایس ایم اکبر نے کہا، "اندر کوٹ کا علاقہ مکمل طور پر اقلیتی آبادی والا ہے، اور لڑکیوں کے اسکول کو  ایک کو ہندی تعلیمی ادارے کے ساتھ ضم کرنے سے بہت سے خاندانوں کو اپنی بیٹیوں کی تعلیم جاری رکھنے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ انہوں نے  وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر انضمام کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ فیصلہ دسمبر 2024 میں بی جے پی کی زیرقیادت راجستھان حکومت کی طرف سے پولیسنگ میں اردو اور فارسی اصطلاحات کو ہندی اصطلاحات سے تبدیل کرنے کی ہدایت کے بعد آیا ہے۔

مقامی مسلم رہنماؤں نے کہا کہ  انتظامیہ کے اس اقدام سے اردو کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہے اور طلباء کو اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے میں منفی اثر پڑے گا۔اس سلسلے میں مقامی مسلمانوں اور طلبا کے والدین نے احتجاج کیا اور کہا کہ اردو میڈیم اسکولوں کو ختم کر کے حکومت ہماری تاریخ اور شناخت کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اردو ہماری شناخت کا لازمی حصہ ہے۔

مقامی رہنما محمد رازی نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے کمیونٹی کے اپنی ترجیحی زبان میں تعلیم کے حق کی خلاف ورزی قرار دیا۔  انہوں نے کہا کہ یہ صرف زبان کے بارے میں نہیں ہے؛ یہ تعلیمی مساوات  کا بھی مسئلہ   ہے۔

مظاہرین  نے ضلع کلکٹر اور راجستھان کے وزیر اعلی بھجن لال شرما کو ایک میمورنڈم پیش کیا ہے، جس میں اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کارکنوں نے اپنے مطالبات کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے بڑے احتجاجی مظاہروں کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے، جس میں بڑے پیمانے پر ریلیاں بھی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ زیر بحث اردو میڈیم اسکولوں کی جڑیں اجمیر کی تاریخ میں گہری ہیں، جنہوں نے آٹھ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے  مقامی مسلمانوں کی  خدمت  میں مصروف ہیں ۔