راجدھانی دہلی کی دو تاریخی مساجد کو ریلوے کا نوٹس ،15 دن کے اندر ہٹانے کا انتباہ

بنگالی مارکٹ مسجد اور تکیہ ببر شاہ کو محکمہ ریلوے نے  نوٹس بھیجا، مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ 250 اور 500 سال پرانی مسجدیں ہیں   دہلی وقف بورڈ نے بھی بھیجا نوٹس،غیر قانونی کی بات خارج  

نئی دہلی ،22جولائی :۔

آج کل تاریخی مساجد سرکاری محکموں کے نشانے پر ہیں ۔کہیں بھی کوئی بھی محکمہ کسی بھی تاریخی اور قدیم مسجد کو غیر قانونی بتا کر اسے نوٹس جار کر دیتا ہے ۔تازہ معاملہ  دہلی کی دو مساجد بنگالی مارکیٹ اور آئی ٹی او میں واقع تکیہ ببر شاہ کا ہے ۔ان دونوں تاریخی مساجد کو ریلوے حکام نے  نوٹس دیا ہے۔ نوٹس میں ریلوے نے دونوں مساجد کی انتظامیہ سے 15 دن میں تجاوزات ہٹانے کا کہا ہے۔ بصورت دیگر کارروائی کرنے کا بھی انتباہ دیا ہے۔ ریلوے کی جانب سے جاری نوٹس میں کہا گیا کہ 15 دن میں تجاوزات ہٹائیں ورنہ ہم آکر ہٹا دیں گے۔ دوسری جانب مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ سینکڑوں سال پرانی مسجد ہے لیکن ریلوے کہہ رہا ہے کہ یہ ان کی زمین پر بنایا گیا ہے۔وقف بورڈ نے بھی اس سلسلے میں اپنا جواب ریلوے محکمہ کو بھیجا ہے ۔بورڈ کا کہنا ہے کہ 1945 کے تحت یہ قانونی معاہدہ ہے ،کوئی غیر قانونی تعمیر نہیں ہے ۔

رپورٹ کے مطابق یہ نوٹس ناردرن ریلوے انتظامیہ نے جاری کیا ہے۔جس میں لکھا ہے ’’ریلوے کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا گیا ہے۔ آپ اس نوٹس کے 15 دنوں کے اندر ریلوے کی زمین پر تعمیر شدہ غیر مجاز عمارت/مندر/مسجد/مزار کو رضاکارانہ طور پر ہٹا دیں، بصورت دیگر ریلوے  محکمہ   کارروائی کرے گا۔ ریلوے ایکٹ کی شق کے مطابق ناجائز تجاوزات کو ہٹایا جائے گا۔ اس عمل میں ہونے والے کسی بھی نقصان کے لیے آپ خود ذمہ دار ہوں گے۔ ریلوے انتظامیہ ذمہ دار نہیں ہوگی۔‘‘

مسجد تکیہ ببر شاہ کے سیکرٹری عبدالغفار کے مطابق یہ مسجد تقریباً 400 سال پرانی ہے۔ ریلوے نے اس مسجد کے ساتھ بنے ایم سی ڈی کے ملیریا آفس کو بھی خالی کرنے کا نوٹس جاری کیا ہے۔ نوٹس کو یہاں چسپاں کر دیا گیا ہے۔

 

مسجد کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ 250 اور 500 سال پرانی مسجدیں ہیں۔ اس معاملے پر انہوں نے کہا کہ یہ مسجد جس کے اندر حجرہ، صحن، بیت الخلا، چبوترہ وغیرہ ہیں، کل 0.095 ایکڑ اراضی چیف کمشنر نے گورنر جنرل ان کونسل کے ذریعے 06.03.1945 کو ایک معاہدے کے ذریعے سنی مجلس اوقاف کو منتقل کی تھی۔ یہ معاہدہ ایڈیشنل بک نمبر 1 جلد 95 میں صفحہ 49 تا 51 نمبر 278 کے ساتھ درج ہے۔ اس معاہدے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ معاہدے کی تاریخ سے ایک مسجد جس میں حجرے (کمرے) اور ایک کنواں اور غسل خانہ پہلے سے موجود تھا۔

حوالہ کے تحت وقف جائیداد وہی ہے جو دہلی انتظامیہ کے گزٹ میں مورخہ 16.04.1970 میں مطلع کیا گیا ہے۔ نوٹس میں مذکور جائیدادیں 123 وقف جائیدادوں کا حصہ ہیں جنہیں مرکزی حکومت نے 05.03.2014 کو دہلی وقف بورڈ کے حق میں ڈی نوٹیفائی کیا تھا۔

اتنا ہی نہیں دہلی وقف بورڈ نے بھی اپنے جواب میں کہا کہ موجودہ معاملے میں زیر بحث مسجد 400 سال سے زیادہ عرصے سے موجود ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ زیر بحث مسجد ریلوے کی زمین پر تجاوزات ہے حقائق اور قانون کے منافی ہے۔ نہ یہ زمین ریلوے کی ہے اور نہ ہی  مذکورہ مسجد  غیر قانونی ہے۔وقف بورڈ نے کہا ہے کہ مندرجہ بالا مواد اور حقائق کے پیش نظر، آپ (ریلوے) کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ متعلقہ نوٹس کو فوری اثر سے واپس لے لیں/منسوخ کریں اور دہلی وقف بورڈ کو مطلع کریں کہ متعلقہ نوٹس کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔