رابطہ عالم اسلامی کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسیٰ کا دورہ ہند
نئی دہلی ،09جولائی :۔
دنیا بھر میں اعتدال پسند نظریات کے حامل شخصیت کے طور پر معروف رابطہ عالم اسلامی یعنی مسلم ورلڈ لیگ (ڈبلیو ایم ایل) کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسیٰ آئندہ 10 سے 15 جولائی تک ہندوستان کے پانچ روزہ دورے پر آرہے ہیں۔ان کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک کے مسلمان اور حکومت کے درمیان یونیفارم سول کوڈ پر تنازعہ جاری ہے ۔ایسے وقت میں رابطہ عالم اسلامی کے سکریٹری جنرل کا دورہ کافی اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسیٰ اپنے دورے کے دوران قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال، وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور اقلیتی امور کی وزیر اسمرتی ایرانی سے ملاقات کریں گے،وہ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو سے بھی ملاقات کر سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ خسرو فاؤنڈیشن کے چیئر مین کی کی جانب سے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر (آئی آئی سی سی ) میں منعقد ہونے والے پروگرام میں مسلم مذہبی رہنماؤں، دانشوروں اور صحافیوں سے خطاب کریں گے۔رپورٹ کے مطابق وہ گجرات میں واقع سوامی نارائن فرقہ کے زیر انتظام اکشردھام مندر بھی جائیں گے اور روانگی سے قبل وہ آگرہ میں تاج محل بھی دیکھنے جاسکتے ہیں۔
ایسے وقت میں جب مرکزی حکومت یونیفارم سول کوڈ لانے کی تیاری کر رہی ہے اور یو سی سی کا نفاذ ملک کے تمام طبقات اور مذاہب کے لوگوں کو اعتماد میں لئے بغیر ممکن نہیں ہے اور تمام طبقات سے بات چیت کئے بغیر اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا ۔ایسے میں وقت میں ڈاکٹر العیسیٰ کے ہندوستان کے دورے کو حکومت کی ’امن ڈپلومیسی‘ کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔
تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستان میں ہمیں ایسے تنازعات کا سامنا ہے جسے حکومت ہند بات چیت اور دیگر ذرائع سے خود ہی نہیں سنبھال سکتی اور اسے حل کرنے کے لیے غیر ملکی حکومتوں یا ان کے اعلیٰ مذہبی رہنماؤں سے رابطہ کرنا چاہتی ہے؟ کیا ہمیں مسلم انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا سامنا ہے جس کا مقابلہ ڈاکٹرالعیسیٰ جیسے عالمی مسلم مذہبی رہنماؤں کے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے کرنے کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ ڈاکٹر العیسی پوری دنیا میں ایک اعتدال پسند اسلام کے نظریات حامل شخصیت کے طور پر معروف ہیں اور پوری مسلم دنیا میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ شہزادہ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے ویژن 2030 کے تحت سعودی عرب کے جدید کاری کے پروگرام کے اہم حامی ہیں۔انہوں نے سعودی حکومت میں متعدد اصلاحات کئے ہیں ۔جن میں خاص طور پر سعودی خواتین کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرناہے۔ اب خواتین کو کئی سرگرمیوں میں دیکھا جا سکتا ہے: ہوائی اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں، مالز، بینکوں، ہسپتالوں اور ہوٹلوں میں ۔اس سے قبل سعودی خواتین صرف چند شعبوں تک محدود تھیں۔ اس طرح ڈاکٹر العیسیٰ سعودی حکومت کی سعودی عوام اور سعودی معاشرے کی بھلائی کے لیے تبدیلی لانے میں مدد کرنے پر تعریف کے مستحق ہیں۔
لیکن حکومت ہند کے سرکاری ترجمان سمجھے جانے والے کچھ ڈیجیٹل میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور مسلمانوں کی بنیاد پرستی سے پریشان ہے۔ اسی تناظر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے مصر کے مفتی اعظم ڈاکٹر شاکی ابراہیم سے گزشتہ ماہ قاہرہ میں ان کے ساتھ سماجی اور مذہبی ہم آہنگی سے متعلق امور کے ساتھ ساتھ انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے پر بات چیت کی۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر العیسیٰ کو بھی دعوت دی گئی ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور انہیں مشورہ دیں کہ وہ انتہا پسندی، تشدد کا راستہ اختیار نہ کریں اور اعتدال کی زندگی گزاریں۔
اگر رابطہ عالمی اسلامی کے سیکرٹری جنرل کو مدعو کرنے کا اصل مقصد یہی ہے تو یہ عالمی سطح پر یا کم از کم مسلم دنیا میں ہندوستانی مسلمانوں کی کردار کشی کے مترادف ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان بنیاد پرستی کی طرف بڑھ چکے ہیں اور اپنے ہی ملک میں ہم آہنگی اور امن کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ ہندوستان کے حقیقی حالات سے واقف کوئی بھی شخص یہ کہنے میں ایک لمحے کے لیے بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا کہ یہ سب ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف جھوٹی اور من گھڑت کہانیاں ہیں۔
مسلمانوں کو ہندوستان میں جو مسائل کا سامنا ہے اس کے لئے ہندوستانی مسلمانوں کو کسی غیر ملکی مذہبی رہنما کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ انہیں بتائے کہ ان کے اعمال غیر اسلامی ہیں اور انہیں دوسری برادریوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہئے؟ اندرونی مسائل سے نمٹنے میں غیر ملکی لیڈروں کو شامل کرنا نہ تو مسلمانوں کے لیے اچھا ہے اور نہ ہی ملک کے لیے۔اگر اس دورے کے پس پردہ ہندوستانی مسلمانوں اور حکومت ہند کے درمیان تال میل اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنا ہے تو یہ کسی بھی طریقے سے درست اور بہتر نہیں سمجھا جا سکتا ہے ۔
گزشتہ دس برسوں میں جب سے نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے مسلمانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے ایسے سنگین حالات کا سامنا گزشتہ 75 برس میں نہیں ہوا۔مسلمانوں کو روزانہ موب لنچنگ، پولیس اور سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے مقدمات سامنا ہے ۔ ریاستی اور غیر ریاستی افراد، سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں، منتخب نمائندوں، وزراء اور سخت گیر ہندوتو تنظیموں کے ذریعہ ان کے خلاف شروع کی گئی نفرت انگیز مہم کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسے گروپ کے ذریعہ معصوم اور بے گناہ نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔نماز پڑھنے کو بھی جہاں جرم شمار کر لیا گیا ہے ۔ ایسے سنگین اور روزمرہ کے مسائل کے درمیان حکومت کو غیرملکی نمائندوں کو ثالثی بنانے کے بجائے خود مسلمانوں سے بات چیت کر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔