دینی مدارس کے سلسلے میں اترپردیش حکومت اپنا حکم نامہ واپس لے:محمود مدنی
جمعیة علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کا یوپی حکومت کے چیف سکریٹری کو مکتوب
نئی دہلی 11 جولائی(ہ س )۔
جمعیة علماء ہندنے دینی مدارس کے سلسلے میں اترپردیش حکومت کے حالیہ حکم نامے کو غیر آئینی اور اقلیتوں کے حق کو ضبط کرنے والا عمل بتایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ بلا تاخیر اس کو واپس لیا جائے۔ اس سلسلے میں جمعیة علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے اترپردیش حکومت کے ایڈیشنل چیف سکریٹری، نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس،ایڈیشنل چیف سکریٹری/ پرنسپل سکریٹری، اقلیتی فلاح و بہبود اور وقف یو پی اور ڈائرکٹر اقلیتی فلاح و بہبودیو پی کو خط لکھ اس غیر ا?ئینی اقدام سے باز رہنے کی اپیل کی ہے۔ واضح ہو کہ قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال (این سی پی سی آر) کے خط و کتابت کی بنیاد پر یوپی حکومت نے26جون 2024 کوہدایت جاری کی ہے کہ امدادیافتہ اور تسلیم شدہ مدارس میں داخل غیر مسلم طلبہ کو علیحدہ کیا جائے اوران کا داخلہ سرکاری اسکولوںمیں کیا جائے، اسی طرح غیر تسلیم شدہ مدارس کے تمام طلبہ کو جبراًرسمی تعلیم کے لیے سرکاری پرائمری اسکولوں میں داخل کرایا جائے۔ ا س حکم نامے سے ریاست میں ہزاروں آزاد مدارس متاثر ہوں گے کیو ںکہ اترپردیش وہ ریاست ہے جہاں بڑے بڑے آزاد مدارس ہیں، جن میں دارالعلوم دیوبنداور ندوة العلماء غیرہ شامل ہیں۔ مولانا مدنی نے اپنے مکتوب میں واضح کیا ہے کہ اولاً این سی پی سی آر، امداد یافتہ مدارس کے بچوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر علیحدہ کرنے کی ہدایت نہیں دے سکتا، یہ ملک کو مذہب کے نام پر بانٹنے والا عمل ہے۔دوسری طرف یہ سوال اہم ہے کہ پورے ملک کو چھوڑ کر این سی پی سی آر نے اترپردیش سرکار کو ہی کیوں ہدایت جاری کی؟
مولانا مدنی نے کہا کہ تعلیم کا انتخاب بچوں اور ان کے والدین کی مرضی کا معاملہ ہے کہ وہ کس طرح کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، کوئی بھی ریاست شہریوں سے تعلیم کے انتخاب کا حق نہیں چھین سکتی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ حیرت انگیز ہے کہ این سی پی سی آر کے چیئرپرسن مدارس اسلامیہ کے سلسلے میں غیر معمولی دل چسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور اپنے دائرہ اختیارسے تجاوز کرکے فیصلے سنا رہے ہیں، حالاں کہ ان کو سمجھنا چاہیے کہ ان کا یہ عمل آئین ہند کے حصہ سوم کے تحت شہریوں کو دی گئی دستوری ضمانتوں کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔دوسری طرف مدارس سے متعلق معاملہ معزز سپریم کورٹ کے سامنے زیر التوا ہے جہاں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مقابلے تفصیلی عبوری ہدایت جاری کی گئی ہے۔اس لیے عدالت سےباہر جاکسی فیصلے سے گریز کیا جائے۔ صدر جمعیةعلماء ہندنے کہا کہ دینی مدارس ہندوستانی معاشرے کے مختلف طبقات کو تعلیم یافتہ بنانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
مذکورہ بالا ہدایات مدارس کے مثبت کردار کو داغ دار کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آئین ہند میں یہ ضمانت دی گئی ہے کہ مذہبی اور لسانی اقلیتیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہیں اور ان کو اپنے طور پر چلا بھی سکتی ہیں۔ حکومت اترپردیش کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مدارس کی علاحدہ قانونی حیثیت اور شناخت ہے جیسا کہ رائٹ ٹو فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ، 2009 کے سیکشن 1(5) میں مدارس اسلامیہ کو مستثنیٰ قرار دے کر تسلیم کیا گیا ہے۔ لہٰذا جمعیة علماء ہند مطالبہ کرتی ہے کہ 26 جون 2024 کے حکومتی حکم نامے کو واپس لیا جائے اور 7 جون 2024 کو این سی پی سی آر کے مکتوب کو رد کیا جائے تاکہ مسلم کمیونٹی کے آئینی حقوق کی حفاظت ہو اور مدارس کے طلبہ آزادی سے تعلیم حاصل کرسکیں۔