دیش بھگت یونیورسٹی میں کشمیری طالب علموں کے ساتھ مار پیٹ ،طالبات کے ساتھ بد سلوکی
کشمیری طالبات کا الزام’’ہمارے سروں سے حجاب زبردستی کھینچے گئے،انتظامیہ نے صورت حال کو دیکھتے ہوئے کیمپس بند کیا
نئی دہلی ،15ستمبر :۔
پنجاب کی دیش بھگت یونیور سٹی (ڈی بی یو ) میں کشمیری طالب علموں کے ساتھ مار پیٹ اور طالبات کے ساتھ بد سلوکی کرنے اور ان کا حجاب کھینچنے اور پھاڑنے کا معاملہ سامنے آیا ہے ۔اس واقعہ کے تعلق سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں مظاہرہ کر رہے طالب علموں کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ۔
در اصل معاملہ یہ ہے کہ کشمیر طلباء اپنے داخلوں کو دوسرے کالج میں منتقل کرنے سے ناراض ہیں ،وہ گزشتہ 15 دنوں سے اس سلسلے میں مظاہرہ کر رہے ہیں ۔در اصل طلباء اپنے داخلے کو ایک ایسے کالج میں منتقل کرنے کے اقدام کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں جو کالج انڈین نرسنگ کونسل (آئی این سی) اور پنجاب نرسنگ رجسٹریشن سے منظوری نہیں ہے۔
دی آبزرور پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کی نرسنگ کی ایک طالبہ عظمیٰ(تبدیل شدہ نام) نے کہا کہ 14 ستمبر کو صبح 9 بجے کے قریب اس وقت کشیدگی بڑھ گئی جب یونیورسٹی حکام اور پولیس نے احتجاج میں حصہ لینے والے طلباء سے آمنا سامنا کیا۔
انہوں نے بتایا کہ کئی کشمیری طلباء کو پولیس نے کیمپس میں گرفتار کیا تھا، اب وہ اس سے انکار کر رہے ہیں۔ عظمیٰ (فرضی نام) نے دی آبزرور پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم میں سے کچھ کو لاٹھی چارج کا نشانہ بنایا گیا، کچھ کو حملے کا سامنا کرنا پڑا، انہیں اسپتال میں داخل کرایا گیا۔”ہم مسلمان ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے حجاب ہمارے سروں سے زبردستی کھینچے گئے اور ان میں سے کچھ کو پھاڑ دیا گیا۔
طلباء نے الزام لگایا کہ یونیورسٹی نے تقریباً 70 کشمیری طلباء کو جو مختلف پیرا میڈیکل کورسز کر رہے تھے سردار لال سنگھ کالج میں منتقل کر دیا، حالانکہ یہ ادارہ، ڈی بی یو پنجاب سے منسلک ہونے کے باوجود، انڈین نرسنگ کونسل کی جانب سے تسلیم شدہ نہیں ہے۔
ایک اور طالبہ نے کہا کہ”انہیں آئی این سی کی طرف سے صرف 60 سیٹیں الاٹ کی گئی تھیں لیکن انہوں نے مزید طلباء کو کورس میں داخل کیا، اب وہ ہمیں ایک کالج سے دوسرے کالج میں ٹرانسفر کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں، یہ ناانصافی ہے۔
2020 بیچ کے طلباء اس اچانک منتقلی کے فیصلے کے خلاف تقریباً 15 دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی کی جانب سے ہاسٹل اور میس کی بندش کے نوٹس کے باوجود ہمیں یونیورسٹی حکام سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی کو ہماری پرواہ نہیں ہے، ۔
14 ستمبر کو ہونے والے احتجاج کی ویڈیوز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وائرل ہو رہا ہے ۔ ان ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس اہلکار خواتین طالبات کو زبردستی سڑک پر گھسیٹتے ہوئے اور مرد طلبہ کو مارتے نظر آ رہے ہیں۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ڈی بی یو کے حکام نے اگلے نوٹس تک یونیورسٹی کو بند رکھنے کا اعلان کیا۔یونیورسٹی کو اگلے احکامات تک بند کر دیا گیا ہے اور اس سے آگے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ معاملہ پولیس اور انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔