دہلی یونیور سٹی کےداخلہ فارم سے اردو زبان غائب، مادری زبان کے سیکشن میں’مسلم‘ کو شامل کیا گیا
ڈی یو ٹیچرز فیڈریشن کا ڈی یو انتظامیہ پر اسلامو فوبیا کا الزام،مادری زبان کے سیکشن میں ذات پات پر مبنی الفاظ شامل کرنے کو شرمناک قرار دیا گیا

نئی دہلی ،21 جو ن :۔
دہلی یونیورسٹی میں انڈر گریجویشن یعنی یو جی میں داخلہ کا عمل منگل سے شروع ہو گیا ہے۔ 17 جون کو وائس چانسلر پروفیسر یوگیش سنگھ نے ڈی یو یو جی داخلہ پورٹل کا آغاز کیا لیکن داخلہ کا عمل شروع ہوئے دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ داخلہ رجسٹریشن فارم کو لے کر تنازعہ شروع ہو گیا ہے ۔ در اصل یونیور سٹی کے رجسٹریشن فار م میں آپشنل کالم سے اردو کو غائب کر دیا گیا ہے ۔وہیں دوسری جانب مادری زبان کے سیکشن میں مسلم،بہاری،اور دیگر ذات پات پر مبنی جیسے الفاظ کو شامل کیا گیا ہے جس کے بعد ہنگامہ برپا ہو گیا ۔ یونیور سٹی انتظامیہ کی اس غلطی کو شرمناک قرار دیا گیا ۔ دہلی یونیور سٹی اساتذہ کی تنظیم نے یونیورسٹی انتظامیہ پر اسلامو فوبیا کا الزام عائد کیا گیا۔ ہنگامہ بڑھتا دیکھ کر یونیور سٹی انتظامیہ نے اسے ماہرین کی غلطی قرار دیا اور اسے درست کرنے کا وعدہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق دہلی یونیورسٹی کے داخلہ فارم میں جہاں عام طور پر طلبہ سے ان کی مادری زبان کے بارے میں پوچھا جاتا ہے، اس بار ‘اردو’ غائب ہے اور اس کی جگہ ‘مسلم’ کو بطور زبان دکھایا گیا ہے۔ اساتذہ اور ماہرین کا الزام ہے کہ یہ نہ صرف غلط ہے بلکہ ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس کے ساتھ مادری زبان کے کالم میں ذات پات کی نشاندہی کرنے والے الفاظ جیسے ‘بہاری’، ‘مزدور’، ‘دیہاتی’، ‘موچی’، ‘کرمی’ وغیرہ بھی لکھے جاتے ہیں۔
کروڑی مل کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ڈی یو ٹی اے (دہلی یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن) کے منتخب رکن ردراشیس چکرورتی نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ پاگل پن ہے تو اس کے پیچھے کوئی سوچی سمجھی منصوبہ بندی ہے، یونیورسٹی کا یہ اقدام واضح طور پر فرقہ وارانہ ہے، اردو کو ہٹانا صرف ایک زبان کو ہٹانا نہیں ہے، یہ اس مشترکہ ثقافت اور ادب کو مٹانے کی کوشش ہے جو اردو نے تخلیق کی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈی یو کے حکام شاید یہ مانتے ہیں کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے، اس لیے انہوں نے ‘اردو’ کے بجائے ‘مسلم’ زبان کا اضافہ کیا۔ یہ نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ ملک کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی کو ‘دیگر’ یا ‘مختلف’ ثابت کرنے کی کوشش بھی ہے۔
ڈی یو کے اساتذہ کی سرکردہ تنظیم ڈی یو ٹیچرز فیڈریشن (ڈی ٹی ایف) کے عہدیدار پروفیسر ابھا دیو حبیب نے یو جی داخلہ کے عمل 2025 کے داخلہ فارم کے حوالے سے محاذ کھول دیا ہے، انہوں نے الزام لگایا ہے کہ داخلہ فارم میں مادری زبان کے آپشن کے تحت اردو زبان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے، جبکہ "مسلم” کو مادری زبان کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جس طرح سے ڈی یو کے داخلہ فارم میں اردو کو مادری زبان کے طور پر شامل نہیں کیا گیا ہے، یہ نہ صرف آئین کے آٹھویں شیڈول میں درج زبان ’اردو‘ کی توہین ہے بلکہ یہ ایک مخصوص کمیونٹی کے تئیں فرقہ وارانہ ذہنیت کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ انہوں نے ڈی یو یو جی داخلہ فارم میں اس طرح کی غلطی کے لیے ڈی یو انتظامیہ پر اسلامو فوبیا کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا دہلی یونیورسٹی یہ نہیں سمجھتی کہ مسلمان بھی اپنے علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرح زبانیں بولتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے کے بعد یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ایک مرکزی یونیورسٹی ایسی غلطی کیسے کر سکتی ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ نہ تو اسے محض لاعلمی سمجھا جا رہا ہے بلکہ اسے دانستہ فرقہ وارانہ جوڑ توڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ڈی یو یو جی رجسٹریشن فارم میں دیگر بے ضابطگیاں بھی ہیں۔ پروفیسر ابھا دیو حبیب نے بھی اس بارے میں پوسٹ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ داخلہ فارم میں ذاتوں اور ذیلی ذاتوں کا الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ‘بہاری’ کو بطور ذات لکھا گیا ہے۔ اس سے بڑا اعتراض کیا ہو سکتا ہے۔
دہلی یونیورسٹی کے اس اقدام سے نہ صرف ماہرین تعلیم ناراض ہوئے ہیں بلکہ اس نے ایک بڑی بحث کو بھی جنم دیا ہے- کیا تعلیمی اداروں میں زبانوں اور برادریوں کے نام پر امتیازی سلوک شروع ہو گیا ہے؟