دہلی کے انتہائی مصروف علاقے میں واقع قدیم درگاہ راتوں رات غائب
دہلی جل بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو افسر کی کوٹھی کا راستہ بنانے کے لئے منڈی ہاؤس کے گول چکر واقع ننھے میاں چشتی درگاہ پرراتوں رات انہدامی کارروائی کر دی گئی
نئی دہلی،یکم مئی:۔
دہلی سے مسلم نام والی سڑکوں کا نام تو راتوں رات تبدیل ہوتے دیکھا گیا تھا ۔ہندو شدت پسندتنظیموں کے ارکان سڑک پر لگے سائن بورڈ پر نام تبدیلی کے پوسٹر چسپاں کر جاتے تھے لیکن اب ایسا ماحول بن چکا ہے کہ مسلم شناخت والی عمارتیں اور درگاہیں بھی راتوں رات غائب ہونے لگی ہیں۔ایسا ہی واقعہ گزشتہ ہفتے دہلی کے انتہائی مصروف علاقے منڈی ہاؤس کے گول چکر پر واقع ایک درگاہ کے ساتھ ہوا ہے ۔جہاں یہ درگاہ 25ا پریل کو اپنی جگہ قائم تھی مگر 26 اپریل کی صبح گول چکر پارک میں ننھے میاں چشتی درگاہ اچانک ناپید ہو گیا ۔وہاں روزنہ دکان اور اسٹال لگانے والے یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے ۔
راتوں رات اچانک قدیم ننھے میاں چشتی کی درگاہ کو ملبہ میں تبدیل کئے جانے پر سوال اٹھنے لگے ہیں لیکن کہیں سے اب تک اس کا جواب نہیں مل سکا ہے ۔روزنامہ انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق دہلی جل بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو افسر کی کوٹی کا راستہ بنانے کے لئے اس قدیم ننھے میاں چشتی کی درگاہ کو منہدم کر دیا گیا ہے ۔بلدیہ کے حکام نے بڑی ہی رازداری اور رات کی تاریکی میں اس کارنامے کو انجام دیا ہے جس کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی ۔
مکتوب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اے ایس آئی ،این ڈی ایم سی اور دہلی پولیس سے رابطہ کرنے کے بعد بھی کسی نے اس بات کی ذمہ داری قبول نہیں کی کہ انہدامی کارروائی کی منظوری کس نے دی تھی ۔اس درگاہ کا تذرہ اے ایس آئی کی لسٹ آف محمڈن اینڈ ہندو یادگاروں میں بھی ملتا ہے ۔
دی وائر کی رپورٹ کی مطابق اس درگاہ کے ایک نگراں اکبر علی نے بتایا کہ حکام کی جانب سے ڈھانچہ ہٹانے سے متعلق کوئی بھی حالیہ دنوں بھی نوٹس نہیں دیا گیا تھا ۔ اکبر علی کاکہنا ہے کہ گزشتہ سال دو اگست کو کچھ افسران آئے تھے اور تائلس کے ساتھ ساتھ باؤنڈری کی دیوار وغیرہ کو ہٹا دیا تھا لیکن 26 اپریل کو وہ اچانک صبح تین بجے پہنچے اور سب کچھ نیست و نابود کر دیا۔اکبر علی کا کہنا ہے کہ انہیں اس بارے میں پختہ معلومات نہیں کہ ایسا قدم کیوں اٹھایا گیالیکن لگتا ہے کہ حکام مزاروں اور درگاہوں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شاید اس انہدامی کارروائی کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں موجودہ ماحول میں اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔
درگاہ کے ایک دوسرے نگراں انور علی نے درگاہ کے وہ کاغذات بھی پیش کئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ 1970 کی دہائی سے لینڈ ٹیکس ادا کئے جا رہے ہیں۔گزشتہ 45 سال سے درگاہ کی دیکھ بھال کر رہے انور علی نے بتایاکہ یہ درگاہ کم از کم 250 برس قدیم تھا لیکن اب اس کا کوئی نام و نشان نہیں بچا ہے ۔
درگاہ کی دیکھ بھال کرنے والوں نے بتایا کہ ہر جمعرات کو مختلف مذاہب کے لوگ قوالی کے سیشن میں آکر شرکت کرتے تھے۔ اکتوبر میں ہم سید ننھے میاں چشتی کے عرس کی میزبانی مذہبی جوش و خروش سے کیا کرتے تھے۔ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لیکن اب اس قدیم مزار کو منہدم کر دیا گیا ہے ۔
واضح رہے کہ منڈی ہاؤس کے انتہائی مصروف علاقے میں واقع اس درگاہ میں بلا تفریق مذہب اور عقیدہ کے بڑی تعداد میں لوگ سیاحت کے لئے پہنچتے تھے ۔ شہر کی بھیڑ بھاڑ والی زندگی سے پریشان افراد بھی یہاں پہنچتے تھے اور سکون کا احساس کرتے تھے لیکن اب یہاں ہر طرف بے سکونی اور بے اطمینان کا عالم ہے ،صرف ملبوں کے نشانات باقی ہیں۔