دہلی کی شاہی عیدگاہ پارک میں مجسمہ نصب کئے جانے کا معاملہ، ہائی کورٹ نے مسلم فریق کی عرضی خارج کی

نئی دہلی ،26 ستمبر :۔

دہلی کی معروف شاہی عید گاہ کا معاملہ ان دنوں سرخیوں میں ہے۔در اصل ڈی ڈی اے نے عید گاہ کے پارک میں رانی لکشمی بائی کا مجسمہ نصب کرنے کا فیصلہ کیا جس کے خلاف عید گاہ کمیٹی نے ہائی کورٹ کا رخ کیا اور عید گاہ پارک کو بھی عید گاہ کا حصہ قرار دیتے ہوئے مجسمہ نصب کرنے کی مخالفت کی مگر کورٹ نے مسلم فریق کی عرضی خارج کر دی ۔

رپورٹ کے مطابق  عدالت نے اس کیس کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ مجسمہ نصب نہ کرنے کے لیے پیش کی گئی دلیل کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ہائی کورٹ کے اس حکم کے فوراً بعد ڈی ڈی اے جھانسی کی رانی کا مجسمہ نصب کرنے کی خاطر پارک کی زمین قبضہ میں کرنے کے لیے شاہی عیدگاہ پہنچ گیا۔ بدھ کے روز زمین قبضے کی اس کارروائی کو انجام دینے کے لیے کثیر تعداد میں پولیس کی تعیناتی بھی کی گئی تھی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق دہلی ہائی کورٹ کا مسلم فریق کی عرضی پر کہنا ہے کہ عرضی دہندہ شاہی عیدگاہ (وقف) مینجمنٹ کمیٹی کو دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے ذریعہ شاہی عیدگاہ کے آس پاس کے پارک یا کھلے میدان کے رکھ رکھاؤ کی مخالفت کرنے اور دہلی میونسپل کارپوریشن (ایم سی ڈی) کے ذریعہ اس کے حکم پر مجسمہ نصب کرنے کی مخالفت کرنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی حق نہیں ہے۔ جسٹس دھرمیش شرما کا کہنا ہے کہ ’’اگر یہ مان بھی لیں کہ عرضی دہندہ کے پاس رٹ پٹیشن داخل کرنے کا حق ہے، تو بھی اس عدالت کو یہ نہیں لگ رہا کہ کس طرح سے ان کے نماز ادا کرنے یا کوئی بھی مذہبی عمل کرنے کے حق کو کسی بھی طرح سے خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔‘‘

دراصل مسلم فریق کی عرضی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ایک وقف کی ملکیت ہے۔ کمیٹی نے 1970 میں شائع ایک گزٹ نوٹیفکیشن کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ شاہی عیدگاہ پارک مغل دور میں تعمیر ایک قدیم ملکیت ہے جس کا استعمال نماز ادا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ اتنے بڑے احاطے میں ایک وقت میں 50 ہزار سے زیادہ لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔

اس پر عدالت نے ہائی کورٹ کی ایک بنچ کے ذریعہ پاس حکم کا حوالہ دیا اور بتایا کہ فیصلہ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ شاہی عیدگاہ کے آس پاس کے پارک یا کھلے میدان ڈی ڈی اے کی ملکیت ہیں اور ان کا رکھ رکھاؤ ڈی ڈی اے کے باغبانی ڈویزن-2 کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ چونکہ شاہی عیدگاہ سے ملحق اور عیدگاہ کی دیواروں کے اندر واقع پارک یا کھلا میدان ڈی ڈی اے کی ملکیت ہے، اس لیے یہ پوری طرح سے ڈی ڈی اے کی ذمہ داری ہے کہ وہ جیسا مناسب سمجھے اس زمین کے کچھ حصے کو عوامی استعمال کے لیے الاٹ کرے۔

شاہی عید گاہ کمیٹی کی جانب سے دی گئی تمام دلیلوں کو سننے کے بعد عدالت نے کہا کہ عید گاہ کی سرحد کے اندر جو پارک اور زمین ہیں وہ ڈی ڈی اے کے تحت آتی ہے اور کمیٹٰ کا یہ دعویٰ کرنا کہ عید گاہ کی دیواروں کے اندر کی پوری جائیداد شاہی عید گاہ کی ہے یہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔عدالت نے کہا کہ اس طرح کا خدشہ ظاہر کیا گیا کہ یہاں پر مجسمہ لگانے سے قانون اور انتظام کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے لیکن چونکہ ایم سی ڈی نے یہ فیصلہ لے لیا ہے کہ یہاں پر مجسمہ لگایا جائے گا ۔ ایسے میں عدالت ایم سی ڈی کے ایسے کسی فیصلے پر غور نہیں کر سکتی۔عدالت نے عرضی کو خارج کرتے ہوئے ایسا کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ مجسمہ لگائے جانے سے مذہبی فرقہ وارانہ ماحول خراب ہوگا۔