دہلی: وائس چانسلر کی تقریر پر تنقید کرنے پر طالبہ معطل، مسلم شناخت کی وجہ سے کارروائی کا الزام
یوم جمہوریہ کی تقریب میں بی آر امبیڈکر یونیور سٹی دہلی کے وائس چانسلر نے اپنی تقریر میں رام مندر کی تعمیر پر حکومت کی تعریف کی تھی،جس پر طالبہ نے تنقید کی تھی

نئی دہلی،25 مارچ :۔
بی آر امبیڈکر یونیورسٹی، دہلی کے وائس چانسلر انو سنگھ لاٹھر کی تقریر پر تنقید کرنے پر ایم اے فائنل ایئر کی ایک مسلم طالبہ کو معطل کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔اس معاملے پر طالبہ کا الزام ہے کہ اسے اس کی مسلم شناخت کی وجہ سے معطل کیا گیا ہے۔
انڈیا ٹو مارو نے انڈین ایکسپریس کی خبر کے حوالے سے بتایا کہ بی آر امبیڈکر یونیورسٹی کے وائس چانسلر انو سنگھ لاٹھر نے یوم جمہوریہ پر رام مندر کے قیام کے لیے حکومت کی تعریف کی تھی۔رپورٹ کے مطابق لاٹھر نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ رام جنم بھومی تحریک 525 سال پرانی ہے اور یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی وائس چانسلر نے رام مندر کے قیام کے لیے ریاست کی تعریف کی تھی۔
امبیڈکر یونیورسٹی کی انتظامیہ کے مطابق 26 جنوری کو وائس چانسلر کی جانب سے دی گئی تقریر پر طالب علم کی جانب سے تنقید کی گئی تھی، جسے پراکٹریل بورڈ نے بے ضابطگی قرار دیا ہے۔ الزام ہے کہ 28 جنوری کو طالب علم نے وائس چانسلر کے تبصروں کی مذمت کی تھی۔یونیورسٹی کی جانب سے جمعہ 21 مارچ کو پروکٹوریل بورڈ کی طرف سے جاری کردہ حکم نامے میں ادارے کے سربراہ کے خلاف ‘بد نظمی’ اور ‘تضحیک آمیز زبان’ استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
یہ الزام آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (AISA) کے ایک طالب علم کارکن کی ای میل کے حوالے سے لگایا گیا ہے، یہ ای میل اس سال جنوری میں یونیورسٹی کے آفیشل میل پر بھیجا گیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق، یونیورسٹی کی کارروائی کے نتیجے میں، طالب علم کو چھ ماہ (پورے موسم سرما کے سمسٹر) کے لیے معطل کر دیا گیا ہے اور اس دوران کیمپس میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق،آئیسا نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ وائس چانسلر انو سنگھ لاٹھر نے یوم جمہوریہ پر اپنی تقریر میں ذات پات پر مبنی اور فرقہ وارانہ تبصرے کیے تھے۔ 28 جنوری کو طالب علم نے وائس چانسلر کے تبصروں کی مذمت کی تھی۔اس کے بعد یونیورسٹی نے 17 فروری کو طالبہ کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا تھا اور 28 فروری کو پراکٹرل بورڈ سے ذاتی بات چیت کے لیے اسے اس کے والدین کے ساتھ بلایا تھا۔
معطل طالبہ نے الزام لگایا ہے کہ اسے مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ "میں اپنے آخری سمسٹر میں ہوں اور مئی کے وسط میں فائنل جمع کروانا ہے۔ یہ میری ڈگری کو ایک سال تک بڑھانے کی دانستہ کوشش ہے۔
طالبہ کا کہنا ہے کہ ’’اگر صرف سوال پوچھنا جرم ثابت ہوگا تو ہماری یونیورسٹی کا کیا موقف ہونا چاہیے… اس ذہنی اور جذباتی ہراساں کرنے کے پیچھے واضح محرکات انتظامیہ کی جانب سے تمام اختلافی طلبہ کے لیے ایک مثال قائم کرنے اور ان کی آواز کو غیر معینہ مدت تک دبانے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔‘‘
طالبہ نے الزام لگایا ہے کہ اسے آواز اٹھانے پر معطل کیا گیا ہے۔ طالبہ نے یونیورسٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ اس کی معطلی اور کیمپس سے نکالے جانے کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔
طلبہ برادری میں ہنگامہ آرائی کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے اقدام کا دفاع کیا۔ ہفتہ کو ایک بیان میں، اس نے کہا، "یونیورسٹی کا پراکٹریل بورڈ کسی بھی ڈسپلن کے معاملے کو حل کرتے وقت ایک مستقل اور غیر جانبدارانہ انداز اپناتا ہے، پس منظر یا حالات سے قطع نظر ہر طالب علم کے ساتھ یکساں سلوک کرتا ہے۔”
انتظامیہ نے کہا ہے، "…ہر کیس کا مناسب عمل کے ساتھ جائزہ لیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں شواہد کی بنیاد پر منصفانہ جائزہ لیا جاتا ہے۔ بورڈ کا فیصلہ "شفافیت اور انصاف کو یقینی بنانے” کے لیے لیا گیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق وی سی نے یونیورسٹی انتظامیہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی تقریر میں جو کچھ کہا اس پر قائم ہیں۔
(بشکریہ انڈیا ٹو مارو)