دہلی : مولانا کے ساتھ مار پیٹ کرنے اور پاکستانی کہنے کے معاملے میں پولیس نے اب تک کوئی کارروائی نہیں کی
دہلی کے لکشمی نگر میں ٹیوشن پڑھا کر لوٹ رہے مولانا کو کچھ شدت پسندوں نے نشانہ بنایا تھا،شکایت کے باوجود کئی دن بعد بھی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی

نئی دہلی،13مارچ :۔
دہلی پولیس مسلمانوں کے معاملے میں کس قدر تعصب کا شکار ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ملک کی راجدھانی میں ایک مولانا کے ساتھ کچھ شرپسندوں نے بد سلوکی کی ان کو کٹھ ملا اور پاکستانی کہا ،مار پیٹ کی مگر کئی دن گزرنے اور شکایت کے باوجود دہلی پولیس نے ا ب تک ایف آئی آر تک درج نہیں کی ہے۔اگر معاملہ اس کے بر عکس ہوتا تو اب تک گرفتاری بھی ہو جاتی اور اس کے گھر پر بلڈوزر بھی چلا دیا جاتا ۔
انڈیا ٹو مارو کی رپورٹ کے مطابق متاثرہ حافظ عبید اللہ قاسمی کو 10 مارچ کی رات لکشمی نگر کے منگل بازار علاقہ میں تین نوجوانوں نے بے دردی سے پیٹا۔ جس میں انہیں زخم بھی آئے۔معاملہ دہلی کے علاقے لکشمی نگر کے منگل بازار کا ہے، الزام ہے کہ پیر کے روز بچوں کو قرآن پڑھانے کے بعد گھر لوٹنے والے عبید اللہ نامی شخص کو مبینہ طور پر انارکی عناصر نے اس کی مذہبی شناخت کی وجہ سے ‘پاکستانی’ کہا اور ان کے ساتھ مار پیٹ کی۔اس معاملے میں پولیس کو شکایت کی گئی ہے لیکن پولیس نے ابھی تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا ہے۔
متاثرہ نے بتایا کہ اس نے سڑک پر تین نوجوانوں کو اپنی طرف آتے دیکھا اور ان سے کچھ فاصلے پر اپنی بائک روک دی۔ "انہوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں، ان میں سے ایک نے میری طرف پستول تان لیا۔
شکایت کے مطابق، نوجوانوں نے "پاکستانی اور کٹھملا ” جیسی اسلامو فوبک گالیوں کا استعمال کیا۔ یہ واقعہ پیر کی رات تقریباً 10:45 بجے پیش آیا۔
عبید اللہ قاسمی گزشتہ 16 سال سے دہلی میں مقیم ہیں اور بچوں کو قرآن پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کپڑے کی ایک دکان میں بھی کام کرتے ہیں جس کا مالک ہندو ہے۔ وہ لکشمی نگر کے آرام پارک میں کرائے کے کمرے میں رہتے ہیں ۔ بنیادی طور پر وہ پٹنہ بہار کے رہنے والے ہیں۔
واقعے کے بعد عبید اللہ قاسمی خوفزدہ ہیں اور پولیس سے انصاف کی امید کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک پولیس کی طرف سے اس معاملے پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
عبید اللہ قاسمی نے انڈیا ٹومارو کو بتایا کہ وہ منگل بازار میں نواب اختر کے گھر بچوں کو قرآن پڑھاتے ہیں۔ پیر کو ٹیوشن پڑھانے کے بعد جب وہ صبح 10:45 پر اپنے اسکوٹر پر آرام پارک واپس آرہے تھے تو تین نوجوان ان کے پاس آئے اور سامنے سے انہیں گھیر لیا اور پاکستانی اور فحش گالیاں دینے لگے۔انہوں نے بتایا کہ ان تین نوجوانوں میں سے ایک نے حملہ کرکے چہرے کے بائیں جانب کو زخمی کردیا۔ جس کے بعد وہ اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگے۔
انہوں نے بتایا کہ میں اسکوٹر چھوڑ کر وہاں سے بھاگا، بھاگتے ہوئے میں زمین پر گر گیا، انہوں نے میرا پیچھا کیا لیکن مجھے پکڑ نہ سکے، ان کے پاس ہتھیار تھا اور انہوں نے مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ اس واقعہ کے بعد عبید اللہ قاسمی اور نواب اختر نے لکشمی نگر پولس اسٹیشن پہنچ کر شکایت درج کروائی لیکن کئی دن گزرنے کے بعد بھی اس معاملے میں ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔
انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ بدمعاشوں نے ان کا پرس بھی چھیننے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ "اس کے ارد گرد بہت سے لوگ موجود تھے، لیکن جب شرپسندوں نے مجھے گھسیٹ لیا، میرے چہرے اور پیٹھ پر پاؤں مارے تو کوئی بھی میری مدد کے لیے نہیں آیا۔
شکایت میں مزید کہا گیا ہے، ’’کچھ لوگوں نے مداخلت کی، مجھے اٹھایا اور وہاں سے بھاگنے کو کہا۔ دو لڑکوں کی مدد سے میں نواب اختر کے گھر پہنچا، جن کے بچوں کو میں پڑھاتا ہوں، اور اپنا اسکوٹر سڑک پر چھوڑ دیا۔