دہلی: لداخ کے سماجی کارکن سونم وانگچک اور ان کے ساتھیوں کو نہیں ملی جنتر منتر پر دھرنےکی منظوری
لداخ بھون میں بھوک ہڑتال شروع، ماحولیاتی کارکن نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گاندھی جی کے راستے پر چلنا مشکل ہو گیا ہے
نئی دہلی،07 اکتوبر :۔
لداخ میں ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک اور ان کے ساتھیوں کو دہلی پولیس کی جانب سے جنتر منتر پربھوک ہڑتال کی منظوری نہیں ملی، اس کے بعد ان تمام لوگوں نے دہلی کے لداخ بھون میں غیر معینہ مدت کے لیے بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ، دہلی پولیس نے اتوار (6 اکتوبر) کواپیکس باڈی لیہہ کے کوآرڈینیٹر جگمت پلجور، جو اس مارچ کے کنوینر میں سے ایک ہیں، کو مطلع کیا کہ موجودہ قوانین کے تحت کسی بھی طرح کی غیر معینہ کی ہڑتال اور بھوک ہڑتال کی منظوری دینے کا کوئی جواز موجودنہیں ہے۔ اس لیے سونم وانگچک اور دیگر کو جنتر منتر پربھوک ہڑتال کی منظوری نہیں دی جا سکتی۔
ایڈیشنل پولیس کمشنر انیش رائے کے ایک خط میں کہا گیا ہے، ‘جیسا کہ درخواست سے واضح ہے، موجودہ قوانین، قواعد اور رہنما خطوط کے تحت کوئی ایسا اہتمام نہیں ہے جس کے تحت کسی بھی طرح کی ‘بھوک ہڑتال’ کی اجازت دی جاسکے، اجتماعی تقریب کی تو بات ہی چھوڑ دیں ۔ رائے کے پلجور کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ اس پروگرام کے آغاز یا اختتام کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں دی گئی ہے، جو سپریم کورٹ کے جاری کردہ 2017 اور 2018 کے احکامات کی بنیاد پر بنائے گئے رہنما خطوط کے خلاف ہے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رہنما خطوط کے مطابق جنتر منتر پر کسی بھی مظاہرے کے لیے درخواست طے شدہ تقریب سے کم از کم 10 دن پہلے دی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں وانگچک نے سوشل میڈیا پر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ اپنے ملک میں گاندھی کے راستے پر چلنا اتنا مشکل کیوں ہے؟
سونم وانگچک نے اتوار کو ایکس پر لکھا، ‘ایک اور ناکامی، ایک اور مایوسی۔ بالآخر آج صبح ہمیں احتجاج کے لیے سرکاری طور پر طے شدہ مقام کے لیے یہ مایوس کن خط موصول ہوا۔ ہم ایک رسمی جگہ پر امن طریقے سے بھوک ہڑتال کرناچاہتے تھے۔ لیکن گزشتہ 2-3 دنوں سے ہمیں ایسی کوئی جگہ نہیں دی گئی۔ ہمیں لداخ بھون میں قید رکھا گیا ہے۔ ہم یہیں سے بھوک ہڑتال کر رہے ہیں۔’
سونم نے مزید کہا، ‘ہمارے سینکڑوں لوگ لیہہ سے دہلی چل کر آئے ہیں۔ ان میں خواتین، سابق فوجی اور 75 سال بزرگ بھی شامل ہیں۔ ہم سب لداخ بھون میں غیر معینہ مدت کے لیے بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے۔’