دہلی فساد2020: مسلم نوجوانوں کو قومی ترانہ گانے پر مجبور کرنے کے معاملے میں ایف آئی آردرج کرنے کا حکم
عدالت نے پولیس کے ذریعہ اس وحشیانہ عمل کو ہیٹ کرائم قرار دیا،جیوتی نگر ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا
نئی دہلی ،یکم فروری :۔
راجدھانی دہلی میں 2020 کے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران مسلم نوجوانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے اور بے رحمی سے مارنے پیٹنے کے معاملے میں دہلی کی ایک عدالت نے اب ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے۔پولیس کے اس وحشیانہ سلوک کو ہیٹ کرائم کے زمرے میں شامل کیا گیاہے۔ عدالت نےجیوتی نگر پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔عدالت نےیہ حکم محمد وسیم کی شکایت کے بعد دیا ہے محمد وسیم مبینہ طور پر پولیس کے تشدد کا نشانہ بننے والے نوجوانوں میں شامل تھا ۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ فروری 2020 میں ایک وسیع پیمانے پر گردش کرنے والی ویڈیو سے متعلق ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ5 زخمی مسلم نوجوانوں کا ایک گروپ سڑک پر پڑا ہے، پولیس افسران انہیں مار پیٹ رہے ہیں ،وہ تمام نوجوان بری طرح زخمی ہیں ،وہ پانی مانگ رہے ہیں ،ان کی آواز بھی بمشکل نکل رہی ہے ایسی حالت میں پولیس کے جوان انہیں پیٹ رہے ہیں اور انہیں وندے ماترم اور قومی ترانہ گانے پر مجبور کر رہے ہیں ۔ متاثرین میں سے ایک، 23 سالہ فیضان، حملے میں زخمی ہونے کی وجہ سے پولیس کی حراست سے رہائی کے ایک دن بعد دم توڑ گیا۔
رپورٹ کے مطابق وسیم نے ابتدائی طور پر جولائی 2020 میں اپنی شکایت درج کرائی، جس میں ملوث افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی گئی۔ کوئی کارروائی نہ کیے جانے کے بعد، اس نے باضابطہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کڑکڑڈوما کورٹ سے رجوع کیا۔ جوڈیشل مجسٹریٹ ادبھو کمار جین نے اب تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے، جس میں 295A (مذہبی جذبات کو مجروح کرنا)، 323 (رضاکارانہ طور پر مجروح کرنا)، 342 (غلط طریقے سے قید) اور 506 (مجرمانہ دھمکی) شامل ہیں۔
عدالت نے اس معاملے کی تحقیقات میں ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام رہنے پر دہلی پولیس کی سرزنش کی۔ اس نے نوٹ کیا کہ پولیس کی طرف سے پیش کی گئی ایکشن ٹیکن رپورٹ (اے ٹی آر) نے واقعے کی کوئی معنی خیز انکوائری پیش کیے بغیر محض الزامات کی تردید کی۔ جج نے مزید کہا کہ ملزم افسران نفرت انگیز جرم میں ملوث ہیں اور سرکاری ڈیوٹی کے تحت تحفظ حاصل نہیں کر سکتے۔
عدالت نے کہا کہ "ایس ایچ او اور دیگر نامعلوم پولیس اہلکاروں کو منظوری کی آڑ میں ڈھال نہیں بنایا جا سکتا، کیونکہ ان کے اقدامات ان کے سرکاری فرض کا حصہ نہیں تھے بلکہ نفرت انگیز کارروائیاں تھیں۔
گزشتہ سال، دہلی ہائی کورٹ نے فیضان کی موت کی تحقیقات سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو منتقل کر دی تھی، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس کی حراست میں موت پولیس فورس کے اندر مذہبی تعصب کی وجہ سے ایک نفرت انگیز جرم ہے۔
تازہ ترین عدالتی حکم 2020 کے دہلی تشدد کے سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے افسران کے خلاف قانونی کارروائی کی ایک نادر مثال ہے، جس نے مسلم کمیونٹی کو غیر متناسب طور پر متاثر کیا۔ تفتیش میں اب اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ اس واقعے میں دیگر پولیس اہلکا ر بھی کس حد تک ملوث ہیں۔