دہلی فساد2020: ان ملزمین کے خلاف سنگل ثبوت بھی نہیں ہے
چار سال بعد کڑ کڑ ڈوما عدالت نے فساد کے دوران توڑ پھوڑ اور حملے کے چھ مسلم ملزمین باعزت بری کر دیئے گئے
دہلی، 03اگست:۔
ایک اہم قانونی پیش رفت میں، دہلی کی کڑکڑ ڈوما کورٹ نے دہلی فساد سے جڑے ایک اہم مقدمہ میں جمعہ کو چھ مسلم نوجوانوں کو چار سال بعد با عزت بری کر دیا ۔ مقدمے میں ملزمان پر ہنگامہ آرائی، چوری، توڑ پھوڑ اور آتش زنی جیسے سنگین الزامات عائد تھے۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ان مسلم نوجوانوں کے خلاف کوئی بھی ثبوت نہیں ہے۔بری ہونے والے ملزمان میں ہاشم علی، ابو بکر، محمد عزیز، راشد علی، نجم الدین عرف بھولا، اور محمد دانش شامل ہیں ۔ ان تمام پر نریش اور دھرم پال کی شکایت پر دفعہ 148/380/427/435/436 کے ساتھ دفعہ 149 اور 188 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ انہوں نے الزام عاید کیا تھا کہ ان چھ مسلم نوجوانوں نے ان کی املاک پر حملہ کیا اور تباہ کیا۔
جمعیۃ کے وکیل ایڈوکیٹ سلیم ملک ہاشم علی اور راشد علی کے مقدمے کی پیروی کر رہے تھے، جب کہ جمعیۃ کے دوسرے وکیل ایڈوکیٹ شمیم اختر ابو بکر کی پیروی کر رہے تھےجبکہ نجم الدین عرف بھولا اور محمد عزیز کی پیروی اے پی سی آر نے کی ۔
واضح رہے کہ ہاشم علی شیووہار کی مدینہ مسجد کے متولی بھی ہیں، جس مسجد کو فسادیوں نے چھ سلنڈر لگا کر تباہ کر دیا تھا، اوران کا گھر بھی جلایا گیا تھا۔ تاہم پولیس نے الٹا ان پر مقدمہ درج کر دیا تھا، جس پرعدالت نے شروع میں ہی تنقید کی ۔
استغاثہ نےالزام لگایا کہ ملزمان ایک ہجوم کا حصہ تھے جس نےمدعی کی جائیداد کودہلی فساد میں تباہ کر دیا تھا۔ گواہ بشمول مدعی شری نریش چند اوران کے بیٹے اُماکانت نے ملزمان کی شناخت سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر شواہد کی بنیاد پر کی تھی۔ اس کا دفاع کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے وکیل نے دلیل دی کہ ملزمان کے جرم میں ملوث ہونے کا کوئی براہ راست ثبوت نہیں ہے۔ انہوں نے گواہوں کی شناخت کی کمی کی نشاندہی کی اور کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور کال ڈیٹیل ریکارڈز نے ملزمان کی شمولیت کو یقینی طور پر ثابت نہیں کیا ہے۔نیز یہ ملزمان خود متاثرین میں شامل ہیں،ان کی مسجد اور گھر بار فسادیوں نے جلادیا ہے، اس لیے ان کو انصاف کی تلاش ہے، یہ امر حیرت ہے کہ متاثرین کو ہی پولیس نے ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے ۔
عدالت نے تمام ثبوتوں کی سماعت کے بعد اپنے فیصلے میں کہا کہ کوئی بھی گواہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے ملزمان کی واضح شناخت نہیں کر سکا۔ جج نے سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزمان کی موجودگی کی تصدیق کے لیے سائنسی جانچ کی کمی پر تنقید کی، چنانچہ جج نے فیصلہ کیا کہ ملزمان کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے لیے کوئی کافی ثبوت موجود نہیں ہے، اوراس لیے تمام الزامات بے بنیاد قرار دیے گئے اور عدالت نے ان لوگوں کو باعزت بری کر دیا۔