دہلی فساد:تین مسلم ملزمان بری،عدالت نے پولیس کے طریقہ تفتیش پر اٹھائے سوال

شواہد جمع کرنے کے معاملے میں ہیر پھیر کرنے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے عدالت نے عقیل احمد ،رئیس خان اور ارشاد کو بری کر دیا

نئی دہلی19اگست :۔

دہلی کی کڑکڑڈوما عدالت نے جمعہ 18 اگست کو ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے 2020 دہلی فسادات کیس میں 3 ملزمان عقیل احمد،رئیس خان اور ارشاد کو بری کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے   دہلی پولیس پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ چارج شیٹ پہلے سے طے شدہ طریقے سے داخل کی گئی ،اس کے لیے دہلی پولیس کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔

ملزمان کے خلاف کئی دفعات میں چارج شیٹ داخل کی گئی ان میں تعزیرات ہند کی دفعہ 147 (فساد)، 148 (مہلک ہتھیار سے فساد)، 149 (کسی مشترکہ چیز کے ساتھ غیر قانونی اجتماع)، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 188 (عوامی نافرمانی)، 436 (فائرنگ) شامل ہیں۔

لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے کہا کہ”یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ رہائی کا یہ حکم اس احساس کی وجہ سے پاس کیا جا رہا ہے کہ رپورٹ ہونے والے واقعات کی صحیح اور اچھی طرح سے تفتیش نہیں کی گئی تھی اور چارج شیٹ پہلے سے سوچے سمجھے، من گھڑت اور غلط طریقے سے تیار کی گئی تھی۔ کارروائی صرف ابتدائی غلطیوں کو چھپانے کے لیے کی گئی ہے۔کیس میں کی گئی تحقیقات کا جائزہ لینے اور اس کی بنیاد پر کارروائی کے لیے کیس کو محکمہ پولیس کو واپس بھیج دیا گیا۔

دی کوئنٹ  کی  رپورٹ میں بتایاگیا کہ  استغاثہ کے مطابق، 2020 کے فسادات کے دوران، ایک ہجوم نے شمال مشرقی دہلی میں وکٹوریہ پبلک اسکول کے آس پاس توڑ پھوڑ کی اور کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ پولیس نے کہا کہ یہ ملزمان اس بھیڑ میں شامل تھے۔ ہجوم مبینہ طور پر پتھر، راڈ اور لاٹھیاں اٹھائے ہوئے تھا۔ علاقے میں سڑکیں بھی بلاک کر دی گئیں تھیں۔

عدالت نے اس معاملے میں شکایت کنندگان کے بیانات کو متضاد پایا اور کہا کہ تفتیشی افسر (IO) نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ بھیڑ NRC/CAA کے حق میں اور خلاف نعرے لگا رہی تھی۔

عدالت نے کہا "اس حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ دونوں ہجوم مختلف اور ایک دوسرے کے خلاف تھے۔ تفتیشی افسران اس سوال پر خاموش رہے کہ کس واقعہ کو کس ہجوم نے انجام دیا۔ ملزمان پر مبینہ واقعات میں ملوث ہونے کا شبہ کرنے کے بجائے، عدالت نے شبہ ظاہر کیا کہ آئی او نے رپورٹ شدہ واقعات کی صحیح تفتیش کیے بغیر، شواہد میں ہیرا پھیری کی۔