دہلی فسادات اور بھیما کوریگاؤں معاملوں میں جیل میں بند مظلوموں کے ساتھ سول سوسائٹی کااظہار یکجہتی

چار سال سے زائد عرصے سے جیل میں بند عمر خالد،خالد سیفی اور دیگر سماجی کارکنان کی   فوری ضمانت پر رہائی کا مطالبہ

نئی دہلی،27 جولائی :۔

جمہوریت اور عوام کی آواز بلند کرنے کے الزام میں چار سال سےزائد عرصہ سے جیل میں بند متعدد سماجی کارکنان اور طلبا کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے سول سوسائٹی کے ارکان گزشتہ روز جمعہ کو پریس کلب آف انڈیا میں جمع ہوئے ۔ ان تمام لوگوں کی فوری ضمانت پر رہائی کا مطالبہ کیا۔

اسوسی ایشن فار پرٹیکشن آف سول رائٹس(اے پی سی آر) کے زیر اہتمام منعقدہ پریس کلب آف انڈیا میں منعقد اظہار یکجہتی کے پروگرام میں   سابق وزراء، ارکان پارلیمنٹ، وکلاء، صحافی، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے ارکان جمع ہوئے اور دہلی فسادات کے الزام میں گرفتار عمر خالد ،خالد سیفی اور گلفشاں فاطمہ سمیت دیگر تمام لوگوں  کی ضمانت پر فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ 2020 کے دہلی فسادات اور دیگر مقدمات میں چار سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں تمام افراد بند ہیں ۔ان میں   عمر خالد، خالد سیفی، گلفشاں فاطمہ، شرجیل امام، آصف اقبال تنہا، اور کئی دوسرے شامل ہیں ۔حالانکہ ثبوت کا ایک ذرہ بھی  ان کے خلاف نہیں ہے۔ تشدد کے کسی بھی واقعے میں ان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے 2019 کے سخت شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی مخالفت کی جس کا مقصد سی اے اے کو نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) سے جوڑ کر اور انہیں خصوصی فہرست میں ڈال کر اپنے ہی ملک میں ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت کو غیر  ملکی قرار دینا تھا۔

اسی طرح بھیما کوریگاؤں اور دیگر معاملات میں درجنوں ایسے لوگ بھی ہیں جو برسوں سے جیل میں ہیں جن کے خلاف لگائے گئے الزامات کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔

پریس کلب آف انڈیا میں منعقد اس پروگرام میں معروف شخصیت اپوروا نند نے کہا کہ دہلی فسادات کے سلسلے میں گرفتار تمام افراد مسلمان ہیں ،ان کے خلاف چار سال گزرنے کے باوجود ٹرائل نہیں ہو سکا ہے۔ان کو صرف ان کے مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔اس موقع پر اپورا نند نے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بی جے پی کی قیادت والی حکومت میں گزشتہ دس برسوں میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ مسلمان ہونا ایک گناہ ہو گیا ہے۔ انہیں کاروبار نہیں کرنے دیا جائے گا ۔انہیں صرف مسلمان ہونے کی سزا ملتی ہے۔ وہ مسلمان دکھتا ہے اس لئے مارا جاتا ہے۔اسے آواز نہیں اٹھانے دی جائے گی ۔یہ تو ہم پچھلے دس برسوں میں دیکھ رہے ہیں۔عمر خالد کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے ان سب مظالم کے خلاف اور برباری کے لئے عمر خالد نے آواز اٹھائی ۔اس کے لئے ان کو سزا دی جا رہی ہے۔

اس موقع پر سابق وزیر قانون سلمان خورشید سینئر ایڈووکیٹ  نے  سسٹم کے کام کرنے کے حوالے سے اپنے ذاتی تجربے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ پارٹیوں کے اندر اندرونی جمہوریت ہونی چاہیے اور کسی بھی لیڈر کو کسی بھی اہم اور  موضوع بحث مسئلے پر اپنا نقطہ نظر  رکھنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ پارٹی کے اندر سے کنارہ کشی سے ڈرے بغیر مسئلہ حل کریں۔

راجا رام سنگھ، ممبر پارلیمنٹ، سی پی آئی (ایم ایل) نے حکومت کے کام کاج پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہا، "گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں ہم نے فاشسٹ حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن انہیں سیاسی طاقتوں سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے بڑی کوشش کی ضرورت ہے۔

سابق آئی اے ایس افسر اور تمل ناڈو سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ سسی کانت سینتھل نے عمر خالد کے ساتھ اپنی قریبی دوستی اور وابستگی اور ان سے بہت متاثر ہونے کو یاد کرتے ہوئے کہا، "جاری جنگ کو تمام محاذوں سے لڑنا پڑتا ہے اور حالیہ لڑائی نے دکھایا ہے  کہ ملک مکمل طور پر اکثریت پسندی کے ہاتھوں تباہ نہیں ہوا ہے۔ جب میں نے کانگریس پارٹی کے قومی معاملات پر نظر ڈالی تو مجھے احساس ہوا کہ یہ لڑائی پارٹیوں، افراد کے درمیان نہیں ہے بلکہ یہ دو ذہنیتوں اور دو نظریات کے بارے میں ہے۔

سی پی آئی (ایم) کے رکن پارلیمنٹ جان برٹاس ،   تحقیقاتی صحافی سورو داس  ،قانونی ماہر گوتم بھاٹیہ پروفیسر نندنی سندر اور کارکن سیدہ حمید وغیرہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور جیل میں بغیر ٹرائل  کے لبے عرصے سے صعوبتیں برداشت کر رہے مظلوموں کی جلد رہائی کا مطالبہ کیا ۔