دہلی شہریت ترمیمی قانون احتجاج: 8 نابالغوں سمیت 40 گرفتار، ان کی رہائی کے لیے لوگوں نے کیا پولیس ہیدکوارٹر کا گھیرا
نئی دہلی، دسمبر 21— تاریخی دلی گیٹ کے قریب شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف مظاہرین پر لاٹھی چارج اور 8 نابالغوں سمیت 40 لوگوں کو حراست میں لینے کے بعد سینکڑوں افراد نے دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر مظاہرہ کیا، جس کے بعد پولیس نے مظاہرین کو رہا کرنا شروع کیا جن میں 8 نابالغ بچے بھی شامل تھے۔
جامع مسجد میں نماز جمعہ کے فورا بعد ہی ہزاروں افراد متنازعہ قانون کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ جنتر منتر کی طرف روانہ ہوئے لیکن پولیس نے جامعہ مسجد سے تقریبا دو کلو میٹر کے فاصلے پر دریا گنج کے دلی گیٹ کے قریب انھیں روکا۔ انھوں نے گھنٹوں وہاں ڈیرے ڈالے اور سڑک پر ’عصر‘ اور ’مغرب‘ کی نماز پڑھی۔ اسی دوران دریا گنج تھانے کے گیٹ کے قریب کچھ نامعلوم افراد نے ایک کار کو نذر آتش کردیا جس کے بعد پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا سہارا لیا۔ جب کہ متعدد زخمی ہوئے اور پولیس نے 8 نابالغوں اور طلبا سمیت 40 لوگوں کو حراست میں لے لیا۔
پولیس پر ان افراد کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر آئی ٹی او میں ہزاروں لوگ جمع ہوئے اور صبح تین بجے تک وہاں احتجاج جاری رکھا جب تک کہ پولیس نے ان افراد کو رہا کرنا شروع نہیں کیا۔ پہلے نابالغوں کو رہا کیا گیا اور پھر مقامی باشندوں کو۔ پولیس نے کچھ بیرونی افراد کو حراست میں رکھا۔
مظاہرین میں سرج گیری ، نندیتا نارائن ، دہلی یونیورسٹی اور جے این یو کے متعدد پروفیسرز سمیت نامور ماہر ماہرین تعلیم اور حقوق کارکن شامل تھے۔ طلبا سے اظہار یکجہتی کے لیے یوتھ رہنما عمر خالد اور ندیم خان ، جماعت اسلامی ہند کے رہنما مجتبیٰ فاروق اور ملک معتصم خان اور مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد بھی موجود تھے۔
جماعت اسلامی ہند کے ملک معتصم خان نے کہا ’’ہم مظاہرین پر پولیس کے لاٹھی چارج کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ کھلا ظلم ہے۔ لوگوں اور طلبا کو پر امن احتجاج کا آئینی حق ہے۔ اگر ہم اپنی شکایات پر امن طریقے سے ظاہر کر رہے ہیں تو حکومت کو کیا حرج ہے۔ حکومت پولیس فورس کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ پولیس فورس کو بھی اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ وہ لوگوں کی فلاح و بہبود اور حفاظت کے لیے ہیں۔‘‘
شہریوں کے قانون کے خلاف احتجاج کے دوران ملک کے عوام کا رویہ پرامن رہا ہے لیکن حکومت نے فون اور انٹرنیٹ پابندیاں عائد کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کر کے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انھیں حراست میں لیا اور انھیں گرفتار کیا۔ جماعت اسلامی کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر مجتبیٰ فاروق نے کہا کہ یہ سب حکومت کی مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔