دہلی : اوکھلا گاؤں میں غیر قانونی تعمیرات  کیخلاف انہدامی کارروائی سے  لوگوں میں خوف و حراس 

اوکھلا گاؤں کے تیمور نگر ،خجر آباد کے مسلم اکثریتی علاقے میں سو سے زائد مکانوں کو منہدم کر دیا گیا ،کورٹ کے حکم سے لا علم مکینوں میں خوف

نئی دہلی،13 مئی :۔

دہلی کے جامعہ نگر میں ایک بار پھر لوگوں میں بے چینی اور خوف کا ماحول ہے۔ سپریم کورٹ نے اوکھلا گاؤں کے کھسرہ نمبر 279 میں چار بیگھہ سے زیادہ سرکاری اراضی پر پھیلی غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کرنے کی سخت ہدایات دی ہیں۔یہ حکم تیمور نگر اور خجر آباد میں انہدام کی حالیہ مہم کے چند دن بعد آیا ہے، جہاں 100 سے زیادہ مکانات کو بلڈوز کر دیا گیا ۔

قابل ذکر ہے کہ جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس اجول بھویان کی بنچ نے دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) اور دہلی حکومت کو تین ماہ کے اندر غیر قانونی تعمیرات ہٹانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ہر متاثرہ شخص کو کم از کم 15 دن پہلے نوٹس دینا لازمی ہوگا۔عدالت نے کہا، "جب ہم ‘قانونی عمل’ کی بات کرتے ہیں، تو اس کا واضح مطلب ہے کہ کسی بھی انہدام کی کارروائی سے پہلے، تمام متعلقہ افراد کو 15 دن کا پیشگی نوٹس دیا جائے گا۔

یہ حکم 2018 کی ایک پرانی ہدایت کی عدم تعمیل پر دائر توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کے دوران آیا، جس میں دہلی میں سرکاری زمین پر غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

خسرہ نمبر 279:

متنازعہ اراضی کا کل رقبہ 34 بیگھہ 8 بسو ہے اور یہ مرادی روڈ اور خلیل اللہ مسجد کے درمیان واقع بتائی جاتی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان کے ایک ساتھی اور اوکھلا اسمبلی کے انچارج محمد خالد نے انڈیا ٹومارو کو بتایا کہ اس میں پیر بابا درگاہ کے قریب اور خلیل اللہ مسجد سے ملحق کچھ زمین شامل ہے، جو فی الحال عدالت میں زیر التوا ہے۔مقامی لوگ اس جگہ کو سید خاندان کے بانی سید خضر خان کا مقبرہ بھی مانتے ہیں جس کا دور 1421 میں ختم ہوا۔

اے اے پی لیڈر کے مطابق یہ معاملہ 1991 سے زیر التوا ہے اور اس سے قبل آشرم فرید آباد فلائی اوور پروجیکٹ کے لیے ڈی ڈی اے نے بٹلہ ہاؤس میں دھوبی گھاٹ کے قریب کچی آبادیوں کو مسمار کرکے زمین کو صاف کیا تھا۔

واضح رہے کہ کل 13 بیگھہ 14 بسوا اراضی خالی ہے۔ 11 بیگھہ 11 بسوا زمین یوپی کے محکمہ آبپاشی کے تحت آتی ہے۔ 9 بیگھہ 3 بسوا پر غیر قانونی تعمیرات ہیں۔ان میں سے 5 بیگھہ 15 بسوا اراضی ڈی ڈی اے کے پاس ہے۔ 3 بیگھہ 5 بسوا PM-UDAY اسکیم کے تحت آتا ہے۔ 2 بیگھہ 10 بسواس کو گرانے کا حکم دیا گیا ہے۔

3 بیگھہ 8 بسوا زمین ڈی ڈی اے کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ عدالت نے اسے ہٹانے کی ذمہ داری دہلی حکومت کو سونپ دی ہے، کیونکہ یہ PM-UDAY اسکیم کے دائرہ سے باہر ہے۔

مکینوں میں الجھن اور عدم اطمینان:

خلیل اللہ مسجد کے قریب رہنے والے بہت سے لوگوں نے کہا کہ انہیں سپریم کورٹ کے حکم کا علم نہیں ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یہ فلیٹ دستاویزات کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد خریدا اور وہ برسوں سے وہاں مقیم ہیں، اور اب بلڈر غائب ہے۔ایک رہائشی نے کہا کہ ہمیں کوئی نوٹس نہیں ملا، اگر ایسی کارروائی ہوئی تو ہم عدالت جائیں گے۔ ہم یہاں کئی دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔ایک مقامی رہنما نے   بتایا کہ اس نے حال ہی میں فلیٹ خریدا ہے اور تمام کاغذات کی جانچ پڑتال کی ہے، لیکن اسے زمین کے تنازع یا سپریم کورٹ کے کیس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔بعض مقامی قائدین نے یہ بھی کہا کہ جامعہ نگر میں پرانی نہروں اور محکمہ آبپاشی کی اراضی پر غیر قانونی تعمیرات کو لے کر کئی وارننگ جاری کئے گئے تھے لیکن اس کے باوجود لوگ دھوکہ دہی کرنے والوں کا شکار ہوتے رہے۔

تیمور نگر کی کارروائی سے لوگ خوفزدہ

کچھ دن پہلے، اوکھلا میں واقع 700-800 سال پرانے تیمور نگر اور خجر آباد علاقوں میں ایک نالے کے قریب بڑے پیمانے پر مسمار کرنے کی مہم چلائی گئی تھی، جہاں بلڈوزر نے 100 سے زیادہ مکانات کو منہدم کر دیا تھا، جن میں سے بہت سے ڈی ڈی اے نے 40-50 سال پہلے بنائے تھے۔ جس سے علاقہ مکینوں میں خوف و ہراس مزید بڑھ گیا ہے۔

اگرچہ درخواست گزار نے توہین عدالت کی درخواست واپس لے لی ہے، سپریم کورٹ نے اس کا از خود نوٹس لینے اور غیر قانونی تجاوزات کی عدالتی نگرانی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈی ڈی اے اور دہلی حکومت کو تین ماہ میں ایکشن رپورٹ پیش کرنی ہوگی۔

چونکہ جامعہ نگر کے رہائشیوں کو نئے سرے سے انہدام کے خطرے کا سامنا ہے، ان کے پاس عدالتوں سے رجوع کرنے کا اختیار ہے۔ اگر ڈی ڈی اے ان کے گھروں کو مسمار کرنے کے نوٹس بھیجتا ہے تو ان کے پاس عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار ہے۔ ان میں سے بہت سے رہائشی تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اس علاقے میں رہ رہے ہیں جو عدالت سے قانونی تحفظ حاصل کر سکتے ہیں۔

(بشکریہ :انڈیا ٹو مارو)