دہلی اسمبلی الیکشن:اوکھلا اسمبلی حلقہ میں تین مسلم امیدواروں کی لڑائی میں بی جے پی کی امیدیں روشن

عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان اب اے آئی ایم آئی ایم کی انٹری سے مسلم رائے دہندگان کی تقسیم کا خدشہ جس کا سیدھا فائدہ بی جے پی اٹھانے کی کوشش کرے گی۔

نئی دہلی ،04 فروری:۔

دہلی میں 5 فروری کو ووٹنگ ہونے جا رہی ہے اس سے قبل اب الیکشن کی تشہیری مہم اور شور شرابہ ختم ہو چکا ہے۔اس بار مقابلہ دلچسپ ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں ایک طرف بی جے پی مکمل اکثریت سے حکومت بنانے کی دعویداری کر رہی ہے وہیں عام آدمی پارٹی اپنی حکومت کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ان دونوں کے درمیان کانگریس کی بھی اس بار امیدیں روشن ہوئی ہیں ۔کانگریس کو بھی پچھلے انتخابات سے بہتر نتائج کی امید ہے۔ دریں اثنا مسلم اکثریتی حلقوں میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی انٹری اور زبر دست تشہیری مہم نے کانگریس اور عام آدمی پارٹی کیلئے فکر میں اضافہ کیا ہے تو بی جے پی کی امیدیں روشن ہوئی ہیں ۔

خاص طور پر اوکھلا واقع جامعہ نگر،ابوالفضل انکلیوں،بٹلہ ہاؤس اور شاہین باغ میں اس بار عام آدمی پارٹی،کانگریس کے ساتھ ساتھ اے آئی ایم آئی ایم نے بھی زبر دست تشہیری مہم چلائی ہے جس کی وجہ سے جہاں عام آدمی پارٹی اور کانگریس  میں فکر مندی پیدا ہوئی ہے وہیں مسلم رائے دہندگان بھی تذبذب میں نظر آ رہے ہیں ۔ اوکھلا ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ اسمبلی حلقہ میں 50 فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ جو کسی بھی امیدوار کی جیت یا ہار میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ طبقہ جس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیتا ہے وہ جیتنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔اوکھلا اسمبلی حلقہ میں شاہین باغ، جسولا گاؤں، تیمور نگر، مدن پور کھدر گاؤں وغیرہ جیسے علاقے شامل ہیں۔

خیال رہے کہ اوکھلا اسمبلی حلقے میں عام آدمی پارٹی نے اپنے پرانے امیدوار اور موجودہ ایم ایل اے امانت اللہ خان پر بھروسہ کرتے ہوئے پھر سے انہیں میدان میں اتارا ہے تو وہیں کانگریس نے سابق کانگریس ایم ایل اے آصف محمد خان کی بیٹی اور موجودہ کونسلر اریبہ خان پر بھروسہ کرتے ہوئے ٹکٹ دیا ہے۔ پچھلے دو انتخابات می امانت اللہ خان نے بڑے مارجن سے جیت حاصل کی ہے۔اس حلقے میں امانت اللہ خان کافی مقبول رہنما تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ان کے پاس جیت کی ہیٹ ٹرک لگانے کا موقع ہے۔  وہیں اے آئی ایم آئی ایم نے دہلی فسادا ت کے الزام میں گزشتہ چار برسوں سے جیل میں بند شفاالرحمان کو ٹکٹ دے کر میدان میں اتارا ہےجبکہ بی جے پی نے نوجوان امیدوار منیش چودھری کو ٹکٹ دیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر پارٹی اور آزاد امیدوار مسلم امیدوار بھی میدان میں ہیں ۔ اس سیٹ سے کل 14 امیدوار میدان میں ہیں۔

عام آدمی پارٹی کے امانت اللہ خان،کانگریس کی اریبہ خان اور اے آئی ایم آئی ایم کے شفا الرحمان کی لڑائی میں بی جے پی کو امید ہے کہ اس بار مقابلہ جم کر ہوگا اور بی جے پی کو اس کا فائدہ ضرور حاصل ہوگا ۔ماہرین کا بھی یہی اندازہ ہے کہ اگر ووٹ تقسیم ہوتا ہے تو کم مارجن سے ہی ہو سکتا ہے بی جے پی کو فائدہ ہو جائے اور تینوں امیدواروں کی لڑائی میں مسلمان خالی ہاتھ رہ جائیں۔تشہیر کے ابتدائی دنوں میں تقریباًدس بارہ دن پہلے  بی جے پی کو یہاں سے کچھ  فیصد امید تھی، لیکن آخری تین چار دن کی حالت دیکھ کر جس طرح مسلم امیدواروں کے درمیان لڑائی چل رہی ہے بی جے پی کی امیدیں مزید بڑھ گئی ہیں۔اگر مسلمانوں نے متحد ہو کر کچھ اہم فیصلہ نہیں کیا تو نتیجہ خراب ہو سکتا ہے۔معروف اسلامی اسکالر اور اوکھلا میں رہنے والے عبد الحمید نعمانی لکھتے ہیں کہ  ووٹنگ سمجھ داری کا عمل ہے نہ کہ جذباتی عمل، کچھ عناصر  جذبات کو مشتعل کر کے اپنے ساتھ لانے کی کوشش کرتے ہیں، کل دہلی  میں بڑے فیصلے کا دن ہے، نہ کہ متبادل تلاش کرنے کا دن۔