دہرادون اسکول  کے کیمپس میں موجود مزار کوشدت پسند ہندوتنظیم کے ارکان نے منہدم کر دیا

نئی دہلی،20 نومبر :۔

اتراکھنڈ میں مسلم شناخت اور علامتوں کے خلاف حکومت اور ہندو شدت پسند تنظیموں کی کارروائی جاری ہے۔مساجد کے خلاف  ہندو تنظیموں کی مہم کے دوران دہرہ دون اسکول میں موجود ایک مزار کو ہندو شدت پسندوں کے ہجوم نے منہدم کر دیا۔اس واقعہ کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔جس پر متعدد صارفین نے اپنے رد عمل کا اظہار بھی کیا ۔اور اس عمل کو عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے لہر کی عکاسی کرنے وا لا تشویشناک قرار دیا ۔

رپورٹ کے مطابق   دائیں بازو کے ایک گروپ کے ارکان نے دہرادون میں ایک ایلیٹ رہائشی اسکول کے احاطے پر دھاوا بول دیا اور  ایک مزار کو منہدم کر دیا ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ مزار حالیہ دنوں میں ہی تعمیر کیا تھا تھا ۔ سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو نے قانون و انتظام پر سوالیہ نشان لگائے ہیں ۔یہ عمل واضح طور پر مسلم علامتوں اور نشانات کو منہدم کرنے کی کھلی حکومتی چھوٹ کا اشارہ کرتا ہے جو ریاست میں قانون و انتظام کی بد حالی پر سوال کھڑے کر رہا ہے ۔

دہرادون کے ڈی ایم ساوین بنسل نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس انہدامی کارروائی کا حکم جاری نہیں کیا گیا تھا ، ضلع انتظامیہ نے اس واقعے سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ ڈی ایم کا کہنا ہے کہ ہماری ٹیم نے جگہ کا معائنہ کیا اور پتہ چلا کہ یہ ڈھانچہ اسکول کے کیمپس کے اندر تھا۔ تاہم انتظامیہ اس کے انہدام  میں ملوث نہیں تھی۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ امن و امان برقرار رہے،‘‘

دریں اثنا سناتن سنسکرت کی صدر رادھا دھونی کی زیرقیادت گروپ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے ا پنی انہدامی کارروائی  کا جواز پیش کیا کہ اس مذہبی ڈھانچے سے  سرکاری اداروں میں مذہبی مقامات کے خلاف احکامات کی خلاف ورزی  ہو رئی تھی  ۔ دھونی نے اسکول پر پرانے ڈھانچے کی مرمت کی آڑ میں مزار کی  انہدامی کارروائی کا جواز پیش کیا  تاہم، کوئی سرکاری ثبوت ان دعووں کی تصدیق نہیں کرتا ہے۔

واضح رہے کہ اس سنگین نوعیت کے واقعہ کے باوجود اسکول انتظامیہ نے اس سلسلے میں باقاعدہ انتظامیہ میں شکایت نہیں درج کرائی ہے ۔ اسکول کی یہ خاموشی در اصل اس غیر قانونی کارروائی جواز پیش کر رہی ہے ۔ مبصرین نے اس خاموشی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے تشویشناک اشارے قرار دیا ہے۔

مسلم رہنماؤں اور کمیونٹی کے ارکان نے اس عمل کی مذمت کی ہے، اور اسے اسلامی ورثے اور علامت کے خلاف وسیع پیمانے پر دشمنی کے ایک حصے کے طور پر دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ  مزار پر حملہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے۔ یہ مسلم شناخت کو مٹانے اور خوف پیدا کرنے کی ایک منظم کوشش کا حصہ ہے۔