دھولا کنواں میں سو سال پرانی مسجد کنگال شاہ اور قبرستان کے خلاف ڈی ڈی اے کی کارروائی پر اسٹے
نئی دہلی، 03نومبر:۔
راجدھانی دہلی کے دھولا کنواں واقع سو سال قدیم مسجد کنگال شاہ اور قبرستان کے معاملے میں ہائی کورٹ سے راحت ملی ہے ۔ہائی کورٹ نے انہدامی کارروائی کو اسٹے کر دیا ہے ۔ واضح رہے کہ اس مسجد کو ڈی ڈی اے نے اس قدیم مسجد پر کارروائی کا فیصلہ کیا تھا جس کے خلاف متعدد سر کردہ لوگوں نے فاضل وکلا کے ذریعہ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس معاملے میں ہائی کورٹ نے ڈی ڈی اے کے فیصلے پر اسٹے کا حکم جاری کر دیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق جن لوگوں نے اس مہم میں بر چڑھ کر حصہ لیا ہے ان میں سپریم کورٹ کے وکیل فضیل ایوبی،اسلم ایڈوکیٹ،سابق بیورو کریٹ حسیب احمد ،سرکردہ سوشل ورکر انعام الرحمان اور رئیس احمد صدیقی ایڈوکیٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ وقف بورڈ کی لیگل ٹیم نے بھی بھرپورتعاون کیا-
رپورٹ کے مطابق دہلی ہائی کورٹ نے جمعرات کو حکام کو ہدایت دی کہ وہ دھولا کنواں میں واقع 100 سال سے زیادہ پرانی مسجدکنگال شاہ ، ایک قبرستان اور مدرسہ کے خلاف فی الحال کوئی کارروائی نہ کریں۔
عدالت نے دہلی حکومت کی مذہبی کمیٹی (ہوم)، مرکز، دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی، دہلی کنٹونمنٹ ایریا کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ، اور دہلی وقف بورڈ سمیت مختلف حکام سے جواب طلب کرتے ہوئے ایک عبوری حکم جاری کیا۔جسٹس پرتیک جالان نے حکم دیا کہ مدعا علیہان درخواست پر چار ہفتوں کے اندر اپنے جواب داخل کریں، اس معاملے کی مزید سماعت 31 جنوری کو ہوگی۔
جج نے کہا، "اس دوران، اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ ڈھانچے 100 سال سے زیادہ پرانے ہیں، جواب دہندگان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اگلی سماعت یعنی 31 جنوری تک ڈھانچوں کے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں۔
پٹیشن دھولا کنواں میں کچنر جھیل کے قریب واقع شاہی مسجد اور قبرستان کنگال شاہ کی منیجنگ کمیٹی نے دائر کی تھی۔
کمیٹی نے سٹی گورنمنٹ کی مذہبی کمیٹی کے اجلاس کے بعد مسجد، مدرسہ اور قبرستان کے خلاف ممکنہ کارروائی کے خدشے کے پیش نظر درخواست دائر کی، جہاں جائیداد کو غیر قانونی مذہبی ڈھانچہ قرار دیا گیا تھا۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جائیداد مذہبی کمیٹی کے دائرہ اختیار سے باہر ہے کیونکہ یہ نجی زمین پر ہے سرکاری زمین پر نہیں،
پٹیشن میں مذہبی کمیٹی کے من مانے اقدامات اور مسجد، درگاہ، قبرستان اور مدرسہ کو غیر مجاز قرار دینے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، اس کے باوجود کہ اسے نجی اراضی کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا اور علاقے میں غیر مجاز تعمیرات کی گزشتہ مسماری میں ان کا کوئی نام نہیں تھا۔اس نے دلیل دی کہ حکام کی طرف سے درخواست گزار کو مناسب سماعت کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔