دکانوں پرشناخت ظاہر کرنے کے فیصلے کیخلاف جمعیۃ علمائے ہند کا قانونی کارروائی پر غور

 صدر جمعیۃ علمائے ہند مولانا ارشد مدنی نے یوگی حکومت کے اس فیصلے کو مذہب کی آڑ میں نفرت کی سیاست کا نیا کھیل قرار دیا

نئی دہلی،21 جولائی:۔

کانوڑ یاترا کے دوران دکانوں اور ٹھیلوں پر نیم پلیٹ لگانے کے یوگی حکومت کے فرمان کی ملک گیر سطح پر تنقید ہو رہی ہے خود حکومت کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے واپس لئے جانے کا مطالبہ کیا ہے وہیں دوسری جانب ملک کی سر کردہ ملی تنظیموں نے بھی اس حکم کو مذہبی منافرت پر مبنی فرمان قرار دیتے ہوئےقانونی اور عدالتی اقدامات کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

جمعیۃ علمائے ہند نے اس سلسلے میں لیگل کمیٹی کی میٹنگ طلب کر کے اس حکم کی قانوی پہلوؤں پر غور و خوض کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جمعیۃ علمائے ہند کےصدر  مولانا ارشد مدنی نے اترپردیش سرکار کے ذریعہ کانوڑیاترا کے روٹ پرمذہبی شناخت ظاہر کرنے والے حکم پراپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے مذہب کی آڑ میں سیاست کے نئے کھیل سے تعبیر کیا اور کہاکہ یہ ایک سراسر امتیازی اور فرقہ وارانہ نوعیت کا فیصلہ ہے، اس فیصلے سے ملک دشمن عناصر کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا اور اس نئے فرمان کی وجہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جس سے آئین میں دئیے گئے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے،مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے کل اپنی لیگل ٹیم کی ایک میٹنگ طلب کی ہے جس اس غیر آئینی، غیر قانونی اعلان کے قانونی پہلووں پر غور وخوض کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے مظفرنگر انتظامیہ کی طرف سے اس طرح کا فرمان جاری ہوا مگر اب اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کا باضابطہ حکم نامہ سامنے آگیا ہے ،جس میں نہ صرف مظفر نگر اور اس کے اطراف بلکہ کانوڑ یاترا کے راستے پر جتنے بھی پھل سبزی فروش،ڈھابوں اور ہوٹلوں کے مالکان ہیں ان سب کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے نام کا کارڈ اپنی دکان، ڈھابہ یا ہوٹل پر چسپاں کریں۔مولانا مدنی نے کہا کہ اب تک ہم تک ایسی معلومات پہنچی ہیں کہ بہت سے ڈھابوں اور ہوٹلوں کے مینیجر یا مالکان جو مسلمان تھے کانوڑ یاترا کے دوران انہیں کام پر آنے سے منع کردیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ سرکاری فرمان کی خلاف ورزی کا حوصلہ کون کرسکتاہے،۔مولانا مدنی نے مزید کہا کہ ملک کے تمام شہریوں کو آئین میں اس بات کی مکمل آزادی دی گئی ہے کہ وہ جو چاہیں پہنیں،جو چاہیں کھائیں، ان کی ذاتی پسند میں کوئی حائل نہ ہوگا،کیوں کہ یہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔آئین میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ ملک کے کسی شہری کے ساتھ اس کے مذہب اور رنگ ونسل کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا اور ہر شہری کے ساتھ یکساں اور مساویانہ سلوک کیا جائے گا۔مگر پچھلے کچھ برسوں کے دوران حکمرانی کا جو طرز عمل سامنے آیا، اس میں مذہب کی بنیاد پرامتیاز عام بات ہوگئی ہے۔بلکہ اب ایسا لگتا ہے کہ حکمران کا حکم ہی اب آئین اور قانون ہے،انہوں نے کہا کہ یہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ حکومت سازی کے وقت آئین کے نام پر حلف لیا جاتا ہے مگر حلف لینے کے بعد اسی آئین کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا ہم تمام مذاہب کا احترام کر تے ہیں،اور دنیا کا کوئی مذہب یہ نہیں کہتاکہ آپ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے نفرت کریں۔یہ کوئی پہلی کانوڑ یاترا نہیں ہے،ایک زمانے سے یہ یاترا نکلتی رہی ہے مگر پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جب کسی شہری کو اپنی مذہبی شناخت ظاہر کرنے مجبور کیا گیا ہو۔بلکہ یاترا کے دوران عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مسلمان جگہ جگہ کانوڑ یاتریوں کے لئے پانی اور لنگر کا اہتمام کرتے آئے ہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ یہ پہلی بار کہ اس طرح کا فرمان جاری کرکے ایک مخصوص فرقے کو الگ تھلگ کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کے درمیان امتیاز اور منافرت پھیلانے کی دانستہ کوشش کی گئی ہے۔