دوران و مابعد: دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ ’وبا‘ ہے
خصوصی مضمون
اے رحمان
زمین خدا کی، ملک کسی بادشاہ کا ہو،وبا کورونا کی۔ یہ حقیقی صورتِ حال ہے۔ لیکن ایک بڑی تعجّب خیز بات ہے کہ پچھلے سو سال میں سائنس،خصوصاً طبّی سائینس، اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں انسان کی نہایت تیز رفتار اور غیر معمولی ترقّی کے باوجود پچھلے سو سال میں دنیا پر نازل ہوئی ہر وبا پچھلی وبا سے زیادہ مہلک اور تباہ کُن ثابت ہوئی ہے۔ اور اب کورونا وائرس نے عالمی پیمانے پر جو قہر بر پا کیا ہے اس کی تو کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ دو تہائی سے بھی زائد انسانی آبادی گھروں میں محبوس ہے۔ ہندوستان کو تو پہلی مرتبہ ’لاک ڈاؤن‘ کا تجربہ ہوا ہے۔ اور لاک ڈاؤن بھی ایسا کہ آدم بیزار جنگلی جانور اور کوشش پر بھی نظر نہ آنے والے نادر الوجود پرندے آبادیوں اور سڑ کوں پر نکل آئے۔ عقاب تو انسانی حدِ نظر سے بالا تر پرواز کرتا ہے، لیکن امریکہ اور بعض دیگر مغربی ممالک میں اعلیٰ نسل عقاب معمولی پرندوں کے مانند درختوں پر بیٹھے دکھائی دیئے، اس لیے کہ سب سے ظالم شکاری یعنی انسان نظروں سے اوجھل ہے۔ ہماچل پردیش سے خبر آئی کہ ایک مدّت سے بندروں کی یورش سے دوچار شملہ اس مصیبت سے نجات پا گیا کیونکہ انسانوں سے مہیّا ہونے والے پھل پھلاری اور دیگر اشیاے خوردنی سے محروم ہو کر تمام بندر اپنی قدرتی آماج گاہ یعنی جنگل کو سدھار گئے۔ کارخانے،ملیں،موٹر گاڑیاں اور دیگر تمام ذرائع نقل و حمل بندہو جانے سے ماحول کی آلودگی اس حد تک زائل ہوگئی کہ آسمان کا قدرتی نیلا رنگ جو عرصۂ دراز سے محض خواب تھا پھر ہویداہو چکا ہے۔ زمین کو سورج کی ماوراے بنفشی شعاعوں سے محفوظ رکھنے والی ’اوزون‘ گیس کی پرت سے انسان کے دیئے ہوئے زخم بھی رفتہ رفتہ مندمل ہو رہے ہیں۔ (نیویارک ٹائمز نے تو لکھا ہے کہ اس وبا کا ایک یہی مثبت پہلو ہے اور ہندوستان کو تو کورونا نے تحفہ دیا ہے جہاں دلّی جیسے شہروں میں فضائی کثافت و غلاظت کا پیمانہ ۵۰۰ سے گھٹ کر محض ۳۸ پر آ گیا ہے) دنیا بھر کی سیاسی سرگرمیاں معطّل ہیں اور (شاید اسی وجہ سے) عمومی تشدد اور سنگین جرائم معدوم ہیں۔ مشہور انگریزی ضرب المثل ہے Death is a great leveler یعنی موت (یا اس کا خوف) سب کو ایک ہی سطح پر لے آتاہے۔ اس کی ایک موزوں لیکن محدود مثال ہوتی تھی کوئی ڈوبتا ہوا بحری جہاز، لیکن وسیع ترین اور آفاقی سطح پر ایسی صورتِ حال صرف کورونا وائرس جیسی وبا ہی پیدا کر سکتی تھی جس سے اس وقت انسانیت دو چار ہے۔ امتیازِ من و تو، مبنی بر مذہب تعصبّات،رنگ و نسل کا تفاخر اور دولت و ثروت کا غرور،عارضی طور پر ہی سہی،لیکن بے معنی ہو چکے ہیں اور ایک خورد بینی جرثومے کے مقابل انسان کو اپنی مکمّل بے بسی کا اتنی شدّت سے احساس ہوا ہے کہ بے دین عیسائی ممالک میں دن رات چرچ کے گھنٹے بج رہے ہیں،پاپائے روم کنواری مریم اور مصلوب ابنِ مریم کے پیروں پر سر رگڑ رہے ہیں، کمیونسٹ چین میں غیر مسلم حکّام کی فرمائش پر اذانیں دی جا رہی ہیں، اجتماعی دعاؤں کا اہتمام کیا جا رہا ہے، مندروں میں برہمن اپنی پختہ زنّاری کا ثبوت دے رہے ہیں اور کل شبِ برأت کا موقعہ پا کر مسلمانوں نے بھی یقیناً اس بلاے بے درماں سے انسانیت کی برأت کے لیے سر بسجود ہو کردعائیں کی ہیں کیونکہ رنج بتوں سے ملے یا کہیں اور سے،جب کوئی دوسرا سہارا نہ ہو تو خدا ہی یاد آتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے اورانسانی تگ و دو کے ہر میدان میں تمام سرگرمیاں اس ہول ناک وبا کے علاج اور تدارک کی کوششوں تک محدود ہو گئی ہیں اور اس کے فرو ہو جانے کے بعدنہ جانے کتنے عرصے تک اس کی پیچھے چھوڑی ہوئی تباہیوں اور نتائج کے مضر اثرات سے آزاد ہوکر نئے سرے سے زندگی ترتیب دینے کا عمل جاری رہے گا۔ یعنی انسان کے لیے قطعی ’دستِ تہِ سنگ آمدہ‘ کی کیفیت ہے۔ احتیاطی تدبیر کے طور پر نافذ کیےگئے’لاک ڈاؤن‘ کی محبوسیت اور اس کے دوران دنیا بھر سے آ رہیں ہول ناک خبریں نیز اپنے غیر یقینی مستقبل کے تصوّر سے پیدا شدہ خوف وخدشات عام آدمی کے ذہن پر جو منفی تاثرات مرتسم کریں گے ان سے فرد کے نفسیاتی اور معاشرتی رویّوں میں تبدیلی ہونا لازمی ہے۔ بحری جہاز کے دنوں میں طویل سفر کے دوران گہرے سمندروں میں تلاطم کے باعث مسافروں کو کئی کئی دن اپنے کیبنوں میں تقریباً قید رہنا پڑتا تھا جس کے نتیجے میں وہ ایک ایسی تکلیف دہ نفسیاتی کیفیت سے دوچارہوتے تھے جسے طبّی اصطلاح میں کیبن فیور (cabin fever) کہا گیا۔ اب یہ اصطلاح قیدِ تنہائی یا موجودہ لاک ڈاؤن جیسی صورتِ حال کے تحت نقل و حرکت پر مکمل پابندی سے پیدا شدہ تکلیف کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ دو چار روز سے زیادہ اس قسم کی پابندی انسان کے ذہن میں ہراس،غصّہ،تشدّد،مایوسی،بے نیازی،قنوطیت اور خود کشی تک کے رجحانات پیدا کر سکتی ہے اور کر دیتی ہے۔ امریکہ اور تقریباًتمام دیگر مغربی ممالک میں مشترکہ خاندان کا تصوّر ختم ہو چکا ہے اور ’خاندان‘ اگر ہے تو عموماً میاں بیوی پر مشتمل ہوتا ہے لہذٰا امریکی ماہرینِ سماجیات کا اندازہ ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے اور حالات کے معمول پر آنے کے بعدامریکہ میں بے شمار طلاقیں واقع ہوں گی۔ مشرق اور خصوصاً برّ ِ صغیر کے ثقافتی پس منظر اور معاشرتی مجبوریوں کے مدّ ِ نظریہاں تو اس قسم کا تو کوئی خطرہ نظر نہیں آتا البتّہ پندرہ دن سے چلے آرہے لاک ڈاؤن (جس میں مزید توسیع کا فیصلہ کیاجا چکا ہے)کے زیر ِ اثر عوام جس ذہنی کرب سے گزر رہے ہیں اور گزریں گے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ راقم کا تجربہ اور ایقان ہے کہ مطالعہ اور تخلیقی عمل ایسی صورت ِ حال کے لیے نہ صرف اکسیرِ شافی ہے بلکہ تخلیق کار کے لیے نعمت ثابت ہوتا ہے۔ شیکسپیئر نے اپنے بعض ڈرامائی اور شعری شاہ کار لندن کے بد ترین طاعون کے دوران تخلیق کیے۔ اسی طرح قحط ِ بنگال (کالی چرن گھوش نے اسی عنوان سے انگریزی میں قحط کی تاریخ رقم کی ہے) کے دوران بھابانی بھٹاچاریہ اور وبھوتی بھوشن جیسے فکشن نگاروں کے ناول،سئکنتا بھٹاچاریہ، پریمندر مترا،بدھ دیو بوس،غلام قدّوس اور فرّخ احمد جیسے شعرا کی شاعری اور سومناتھ ہورے اور زین العابدین جیسے مصوّروں کے فن پارے وجود میں آئے۔ اس دور کے مشہور بنگالی صحافی چتوپرشاد بھٹا چاریہ نے قحط پر وہ انقلابی مضامین لکھے جنہیں غالباً ۱۹۴۲ یا ۴۳ میں ’’بھوکا بنگال‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیا گیا لیکن انگریز حکومت نے فور اً اسے ضبط کر کے اس کی پانچ ہزار جلدیں نذرِ آتش کر دیں۔ (۲۰۱۱ میں یہ کتاب دوبارہ شائع کر دی گئی ہے اور اس میں شامل کچھ سکیچ دلّی کی آرٹ گیلری میں موجود ہیں )جیل کی قید کے دوران تخلیق کیے گئے ادب کا تو عالمی ادب میں ایک الگ ہی مقام ہے اور سر وینٹس،ڈیوڈ تھورو،مارٹن لوتھر کنگ،او ہنری،آسکر وائلڈ،نیلسن منڈیلا،جواہر لال نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسی شخصیات کی جیل میں لکھی گئی تحریروں کو جو شہرت اور توقیر حاصل ہوئی اظہر من الشمس ہے۔
موجودہ لاک ڈاؤن ایک ناقابل ِ برداشت صورت ِ حال لیکن قطعی ناگزیر ہے کیونکہ جب تک اس وائرس کا علاج دریافت نہ ہو جائے کوئی بھی متباد ل احتیاطی تدبیرممکن نہیں۔ مگرمطالعے اور تخلیقی عمل وغیرہ کی استطاعت یا اہلیت نہ ہو تو اس تکلیف دہ صورت ِ حال سے نپٹنے کے لیے کم از کم ایک جائے فرار اور حربہ سوشل میڈیا کی شکل میں موجود ہے بشرطیکہ اسے ضروری پیغام رسانی اور مثبت تفریح کی حد تک استعمال کیا جائے۔ شکر ہے کہ عام آدمی بھی سوشل میڈیا کے ذرائع تک رسائی رکھتا ہے اور اس کے ہوتے ہوئے گھروں تک ’محدودیت‘ ذہن پر اس حد تک بار نہیں ہو گی جتنا اس کی غیر موجودگی میں ہوتی۔ ایک عام اصول کے طور پر بھی مثبت ذہنی رویّے اورزندگی کو خوش دلی اور خوش مزاجی سے گزارنا ہی نصب العین ہونا چاہیے۔ اور جب نوبت ہی ایسی آ جائے کہ حالات ’’ہنس کر گزار یا رو کر‘‘ کا تقاضا کرتے ہوں تو ہنس کر گزارنے میں ہی صحت و عافیت ہے۔
مضمون نگار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ موصوف مختلف سماجی اور ادبی کازوں سے وابستہ ہیں۔ آپ موقر ادارے عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں۔