دنیا بھر میں پریس کی آزادی بدترین سطح پر ،180 ممالک میں ہندوستانی میڈیا 151 ویں مقام پر
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی رپورٹ جاری،، انڈیکس نے پہلی بار عالمی صحافتی آزادی کی حالت کو ’’مشکل صورت حال‘‘ قرار دیا

نئی دہلی ،03 مئی :۔
ہندوستانی مین اسٹریم میڈیا پر ملک میں یوں تو اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو بہتر طریقے سے نہ ادا کرنے کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں اور حکومت کی طرف داری کے الزامات لگتے رہے ہیں مگر ہندوستانی میڈیا کی حالت عالمی پیمانے پر بھی قابل اطمینان نہیں ہے۔ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں ہندوستانی میڈیا 151 ویں مقام پر ہے۔
میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز سانز فرنٹیرز نے گزشتہ کل جمعہ کو کہا کہ ہندوستان 2025ء کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں180؍ ممالک میں151؍ ویں مقام پر ہے۔ یہ غیر سرکاری تنظیم، جسے رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز بھی کہا جاتا ہے،2002ء سے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس شائع کر رہی ہے۔ اس کے مطابق ہندوستان کا مقام2024ء میں 159؍ اور 2023ء میں161؍ تھا، جس میں امسال تھوڑی بہتری ہوئی ہے۔تاہم، یہ اب بھی ’’بہت سنگین‘‘ زمرے میں شامل ہے اور اس بہتری کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ ممالک میں میڈیا کی حالت میں مزید گراوٹ ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہندوستانی میڈیا کو یہ بہتری آئی ہے۔
واضح رہے کہ ہندوستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ’’میڈیا کی ملکیت کا سیاسی طاقتور افراد کے ہاتھوں میں مرتکز ہونا میڈیا کی کثرت کو خطرہ میں ڈالتا ہے۔
مزید برآں، انڈیکس نے پہلی بار عالمی صحافتی آزادی کی حالت کو ’’مشکل صورت حال‘‘ میں قرار دیا ہے۔ تنظیم کے مطابق، میڈیا کے کمزور ہونے کا ایک بڑا عنصر معاشی دباؤ تھا۔ اپنے پڑوسی ممالک میں ہندوستان کا درجہ نیپال (90؍ واں)، مالدیپ (104؍ واں)، سری لنکا (139؍واں) اور بنگلہ دیش (149؍واں) سے نیچے ہے۔ یہ بھوٹان( 152؍واں)، پاکستان (158؍واں)، میانمار (169؍واں)، افغانستان (175؍واں) اور چین (178؍واں) سے بہتر ہے۔ ناروے، اسٹونیا اور نیدرلینڈ پہلے تین مقام پر ہیں۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز، پریس کی آزادی کا جائزہ پانچ اشاریوں کی بنیاد پر لیتا ہے – سیاسی، معاشی، قانونی، سماجی اور حفاظتی۔ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر این بیکنڈے نے کہا کہ معاشی آزادی کے بغیر آزاد پریس نہیں ہو سکتا۔ بیکنڈے نے کہا، "جب خبری میڈیا مالی طور پر دباؤ میں ہوتے ہیں، تو وہ معیاری رپورٹنگ کی قربانی دے کر سامعین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں، اس طرح وہ طاقتور افراد اور حکومتی اداروں کے ہاتھوں کھلونا بن جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ میڈیا کی معیشت کو فوری طور پر ایسی حالت میں لانا ہوگا جو صحافت کیلئے سازگار ہو اور معیاری معلومات کی فراہمی کو یقینی بنائے، جو کہ قدرے مہنگی ضرور ہوتی ہے۔ میڈیا کی مالی آزادی عوامی مفاد میں آزاد اور قابل اعتماد معلومات کی ضمانت ہے۔‘‘
رپورٹ کےہندوستان سے متعلق حصے میں کہا گیا ہے کہ 2014ء میں وزیراعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ملک کا میڈیا ایک ’’غیر اعلان شدہ ایمرجنسی‘‘ کی کیفیت میں چلا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، مودی نے بی جے پی اور میڈیا پر چھائی بڑی فیملی کے درمیان مضبوط تعلقات استوار کیے۔ رپورٹ کے مطابق صنعتکار مکیش امبانی۷۰؍ سے زائد میڈیا آؤٹ لیٹس کے مالک ہیں، جنہیں کم از کم80؍ کروڑ ہندوستانی دیکھتے ہیں۔ امبانی کو مودی کا ’’قریبی دوست‘‘ بتایا گیا۔ اسی طرح 2022ء میں اڈانی کے ’’ این ڈی ٹی وی ‘‘ کے حصول کو مین اسٹریم میڈیا میں تکثیریت کا خاتمہ قرار دیاگیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ گوتم اڈانی کو بھی وزیراعظم کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔
تنظیم کے مطابق جرمنی جو گزشتہ سال دسویں نمبر پر تھا اب درجہ بندی میں سرفہرست 10 ممالک میں شامل نہیں رہا اور وہ 11ویں نمبر پر آگیا ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ جرمنی میں میڈیا اداروں کی معاشی صورتحال نمایاں طور پر خراب ہوئی ہے۔
’’ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز ‘‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینیا اوسٹراؤس نے کہا ہے کہ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی اب ایسے ممالک میں رہتی ہے جہاں ہم صحافتی آزادی کی صورتحال کو انتہائی سنگین قرار دیتے ہیں۔ آزاد صحافت آمر حکمرانوں کے لیے ایک کانٹا بن گئی ہے۔
رپورٹ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے 160 ممالک میں ذرائع ابلاغ پائیدار طریقے سے کام کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ صحافتی آزادی کی درجہ بندی کسی ملک یا علاقے میں صورتحال کا پانچ زمروں میں جائزہ لیتی ہے ۔ یہ زمرے سیاست، قانون، معیشت، سماجی ثقافت اور سلامتی پر مشتمل ہیں۔ درجہ بندی پر مشتمل یہ رپورٹ کل ہفتہ کو منائے جانے والے صحافت کی آزادی کے عالمی دن سے قبل جاری کی گئی ہے۔