دلی تشدد: سابق سول سرونٹس نے معروضی و منصفانہ تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی

فروری میں شمال مشرقی دلی میں ہونے والے بدترین فسادات کی آزادانہ اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کرنے کے لیے سابقہ سول سرونٹس کے ایک گروپ—کنسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ—نے ایک شہری کمیٹی کی تشکیل کی ہے۔ اس کمیٹی کا نام ہے: Citizens Committee on Delhi Riots, February 2020: Context, Events and Aftermath.

آج ایک بیان میں مذکورہ گروپ نے کہا: "فروری میں ہونے والے شمال مشرقی دلی کے ہیبت ناک فسادات کی نوعیت، تشدد، لوگوں کی ہلاکتوں اور اس کے نتیجے کے طور پر دونوں مذہبی طبقات میں فرقہ ورانہ پھوٹ کو دیکھتے ہوئے ہمارا احساس تھا کہ ایک ایکسپرٹ گروپ کو اس بات کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے کہ فسادات سے قبل، دوران اور بعد میں کیا ہوا تھا۔”

"یہ کام ان حالات میں اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ حالیہ دنوں میں دلی پولیس نے فسادات کی جس طرح تحقیقات کی ہیں اس پر کڑی نکتہ چینی ہورہی ہے۔”

گروپ کے بقول فسادات سے ماقبل اور مابعد حالات کا "معروضی” اور "منصفانہ طور پر” جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ گروپ کے مطابق ججوں اور سابقہ سول سرونٹس کو گروپ میں شامل ہونے کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔ جن افراد کو گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ہے ان میں سپریم کورٹ کے سابق جج مدن لوکر، سابق چیف جسٹس مدراس ہائی کورٹ آر ایس لوڈھی، پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق جج انجنا پرکاش، سابق مرکزی سکرٹری جی کے پلئی اور سابق ڈائرکٹر جنرل بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میران چڈھا بوروونکر شامل ہیں۔

گروپ کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ "مذکورہ کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ وہ فسادات سے پہلے اور بعد کے واقعات کے سلسلے میں سرزد ہونے والی غلطیوں اور نظر انداز کیے گئے حقائق کا ایک عارضی ریکارڈ قائم کرے۔ کمیٹی اپنا طریق عمل طے کرنے میں خود مختار ہے۔ وہ اپنی حتمی رپورٹ کام شروع کرنے سے 12 ہفتے کے اندر داخل کرے گی۔”

کمیٹی اس بات کا جائزہ بھی لے گی کہ تشدد کے دوران پولیس کا ردعمل کیا رہا۔ کمیٹی اس بات کا بھی جائزہ لے گی کہ میڈیا نے فسادات سے پہلے اور بعد میں جھوٹی سچی خبریں پھیلانے میں کیا رول ادا کیا۔

واضح رہے کہ اس سال 23 سے 26 فروری کے دوران میں دلی میں شدید فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں 53 افراد کی موت ہوگئی تھی۔ مرنے والوں میں بیشتر افراد اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔

ان فسادات کی آڑ میں دلی پولیس نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے 15 اہم طلبا و نوجوان رہ نماؤں کو سازش کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ ان تمام گرفتار شدگان پر ملک سے بغاوت (یو اے پی اے، قانون) اور غیر قانونی طور پر آتشیں ہتھیار رکھنے کے الزام ہیں۔

یاد رہے کہ عام آدمی پارٹی سمیت بہت سے گروپوں اور شہریوں نے فسادات کے دوران تشدد روکنے میں خود پولیس پر کارروائی نہ کرنے اور تشدد میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔