دلتوں کو مندر میں جانے سے روکنے پر مدراس ہائی کورٹ کا سخت تبصرہ

ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ نے کہا کہ ایسے واقعات سے ہمارا سر شرم سے جھک جانا چاہئے

نئی دہلی،12جولائی:۔

ملک کی آزادی کے 75 سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی دلتوں اور قبائلیوں کے ساتھ اونچی ذات کے طبقات کی طرف سے تعصب اور ذات پات پر مبنی امتیاز کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔جو نہ صرف آئین ہند کے خلاف ہے بلکہ ہماری انسانی مساوات اور برابری کے دعوے کے بھی خلاف ہے ۔ایسے ہی ذات پات کے امتیاز اور چھوا چھوت کے ایک معاملے میں مدراس ہائی کورٹ کی مدورئی  بنچ نے سخت تبصرہ کیا ہے ۔ہائی کورٹ نے ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ وہ چھوا چھوت کے رواج کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتا اور نہ ہی خاموش تماشائی بنے رہ سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق جسٹس پی ٹی آشا نے کہا کہ اگر آزادی کے 75 سال بعد بھی کسی خاص کمیونٹی کو مندروں میں جانے سے روکا جا رہا ہے تو ایسے واقعات سے ہمارا سر شرم سے جھک جانا چاہیے۔

عدالت ماتھی موروگن کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی، جس میں انہیں ارول میگھو سری منگلا نائکی ماتا مندر میں ایک اہلکار کے طور پر مقرر کرنے اور ان کی برادری کو مندر کی تقریبات میں شرکت کی اجازت دینے کی درخواست کی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق حال ہی میں، ایم ماتھی موروگن کو پڈوکوٹائی ضلع میں ایک مندر میں داخلے سے منع کر دیا گیا تھا۔ اس کے خلاف انہوں نے عدالت میں اپیل کی۔ ماتھی نے کہا کہ کچھ لوگ صرف ایک مخصوص کمیونٹی میں پیدا ہونے کی وجہ سے برتر اور افضل  ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔یہ لوگ ماتھی اور ان کی برادری کے لوگوں کو جو شیڈول کاسٹ میں آتے ہیں کو مندر میں داخل نہیں ہونے دیتے۔

جسٹس آشا نے اس معاملے پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی پسماندہ طبقات کو مندر میں بھگوان کی پوجا   سے روکا جا رہا ہے۔ایسی حرکتیں جہاں ایک برادری دوسری برادری کو عبادت کرنے سے روک رہی ہے، وہاں ہمارا سر شرم سے جھک جانا چاہیے۔ پدوکوٹئی ڈسٹرکٹ کلکٹر اس بات کا خیال رکھیں   کہ مروگن اور ان کی برادری کو سب کی  طرح مندر میں پوجا کرنے کی اجازت ہو۔عدالت نے ریونیو ڈویژنل افسر کو بھی ہدایت دی کہ وہ کسی بھی مسئلے کی صورت میں مداخلت کریں اور ضروری کارروائی کریں۔

ماتھی   نے اپنی اپیل میں کہا تھا کہ گاؤں کی امن کمیٹی  کی میٹنگ میں معاہدہ طے پانے کے بعد ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایس سی برادری کے لوگوں کو بھی مندر جانے، عبادت کرنے اور تہواروں میں بغیر کسی رکاوٹ کے شرکت کرنے کی اجازت ہوگی۔