دفعہ370 کو ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستیں سپریم کورٹ سے مسترد
نئی دہلی،22مئی :۔
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے آئینی بنچ کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے کہا، ’’نظرثانی کی درخواستوں پر غور کرنے کے بعد یہ پتہ چلا ہے کہ ریکارڈ میں کوئی واضح غلطی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے رولز، 2013 کے آرڈر 47، رول 1 کے تحت نظرثانی کا کوئی معاملہ قائم نہیں ہوتا۔ نظرثانی کی درخواستیں خارج کی جاتی ہیں۔‘‘
پانچ رکنی بنچ میں جسٹس سنجیو کھنہ، بی آر گوئی، سوریہ کانت اور اے ایس بوپنا بھی شامل تھے۔ بنچ نے ان درخواستوں کو مسترد کر دیا جس میں نظرثانی کی درخواست کو کھلی عدالت میں درج کرنے اور ذاتی طور پر پیش ہونے اور دلائل دینے کی اجازت مانگی گئی تھی۔
11 دسمبر کو دیے گئے فیصلے کے خلاف آئین کے آرٹیکل 137 کے تحت دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلے سے یہ سوال کھلا نہیں رہنا چاہیے کہ کیا پارلیمنٹ کسی ریاست کو ایک یا زیادہ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تبدیل کر کے ریاست کے کردار کو تباہ کر سکتی ہے۔
11 دسمبر کو سنائے گئے فیصلے میں سی جے آئی چندرچوڑ کی سربراہی والی آئینی بنچ نے آئین کے آرٹیکل 3 (اے) کے تحت لداخ کو دیے گئے مرکز کے زیر انتظام علاقے کی حیثیت کو برقرار رکھا تھا۔ تاہم، اس نے اس سوال پر بحث نہیں کی کہ آیا پارلیمنٹ کسی ریاست کو ایک یا زیادہ یونین ٹیریٹریز میں تبدیل کر کے اس کے کردار کو ختم کر سکتی ہے!
سپریم کورٹ نے کہا تھا، ’’سالیسٹر جنرل کے اس عرضی کے پیش نظر کہ جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ضروری نہیں لگتا کہ ریاست جموں و کشمیر کی دو مرکزی زیر انتظام علاقوں لداخ اور جموں و کشمیر میں تنظیم نو کی جائے یا نہیں، کیونکہ آرٹیکل 3 کے تحت اس کی اجازت ہے۔‘‘