خواتین کے جنسی وقار کا تحفظ ہر حال میں کیا جائے
خواتین کے جنسی حقوق کو لیکر الہ آباد ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ، کہا اگرچہ یہ عمل دفعہ 375 کے تحت "ریپ" کی تعریف میں نہیں آتا تاہم یہ دفعہ 377 کے تحت قابل سزا جرم ہے

(مشتاق عامر)
نئی دہلی ،08 مئی :۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے غیر فطری جنسی عمل کے خلاف اہم فیصلہ دیا ہے ۔ ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ بیوی کے ساتھ اُس کی رضامندی کے بغیر غیر فطری جنسی تعلق قائم کرنا تعزیراتِ ہند کی دفعہ 377 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔عدالت نے یہ دلیل دی کہ اگرچہ یہ عمل دفعہ 375 کے تحت "ریپ” کی تعریف میں نہیں آتا تاہم یہ دفعہ 377 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔
جسٹس ارون کمار سنگھ دیشوال نے اپنے فیصلے میں کہا کہ روایتی اور فطری جنسی عمل ہی عورتوں کی اکثریت کے لیے جنسی تعلق کا فطری طریقہ ہے اور اس کے علاوہ کسی بھی قسم کا جنسی تعلق شوہر بیوی کی رضامندی کے بغیر نہیں قائم کر سکتا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اگرچہ یہ عمل دفعہ ۳۷۷ کے تحت ریپ کے زمرے میں نہیں آتا ۔لیکن اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ اس کی مرضی کے بغیر ہی غیر فطری جنسی تعلق قائم کرے تو یہ دفعہ 377 کے تحت قابل سزا ہے۔عدالت نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے بھی اختلاف کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ چونکہ بیوی بالغ ہے اور اس کے ساتھ شوہر نے غیر فطری تعلق قائم کیا اس لیے یہ ریپ نہیں ہے اور نہ ہی یہ دفعہ 377 کے تحت جرم بن سکتا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ بیوی اگرچہ 18 سال سے زائد عمر کی ہو سکتی ہے لیکن ایک فرد کی حیثیت سے اس کا اپنا جنسی رجحان ہوتا ہے جس کا تحفظ نہایت ضروری ہے۔ صرف اس لیے کہ وہ کسی مرد کی بیوی ہے صرف اس وجہ سے اس کا بنیادی حق نہیں چھینا جا سکتا۔ بیوی کو حق حاصل ہے کہ وہ غیر فطری جنسی تعلق پر رضامندی دینے سے انکار کردے۔عدالت نے کہا کہ ایک عورت، بیوی ہونے کے باوجود، اپنی انفرادی جنسی وقار کی حامل ہوتی ہے، جس کا تحفظ ضروری ہے۔
عرضی گزار کے خلاف تعزیراتِ ہند کی دفعات 498A، 323، 504، 506، 377 اور جہیز مخالف قانون کے تحت درج مقدمے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
عرضی گزار کی طرف سے دلیل دی گئی تھی کہ چونکہ وہ شادی شدہ ہے ،اس لیے دفعہ 377 کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا۔ تاہم عدالت نے اس دلیل کو مسترد کر دیا اور درخواست خارج کر دی۔