خطرے میں ہے غزہ میں 9000 زخمیوں اور مریضوں کی زندگی : عالمی ادارہ صحت

جنیوا،31مارچ:۔

غزہ میں عالمی برادری کی دباؤ کے باوجود اسرائیل کی جارحیت جاری ہے اور وہاں کے حالات انتہائی دیگر گوں ہو گئے ہیں ۔عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانم گیبریسس نے کہا ہے غزہ میں موجود 9 ہزار کی تعداد میں زخمی اور مریض ایسے ہیں جنہیں ہنگامی طور پر غزہ سے نکالنے اور علاج کے لیے کسی مناسب اسپتال میں منتقل کرنا ضروری ہے، جو غزہ میں ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ غزہ کےانتہائی جزوی طور پر کام کرنے والے 10 اسپتالوں میں کسی بھی قسم کے زخمیوں اور مریضوں کا علاج ممکن نہیں ہے۔عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کے مطابق ان 9 ہزار فلسطینیوں میں شدید زخمیوں کے علاوہ کینسر کے مریض اور گردوں کے وہ مریض شامل ہیں جنہیں ڈائیلاسز کی ضرورت ہے۔ لیکن غزہ میں وہ بغیر علاج کے موجود ہیں۔ جس سے ان کی جان کو خطرہ ہے۔ گیبریسس نے یہ بات ہفتہ کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر لکھی ہے۔

العربیہ کی رپورٹ کے مطابق ‘ڈیبلیو ایچ او’ کے مطابق جنگ سے پہلے غزہ کے فلسطینیوں کے لیے 36 اسپتال بروئے کار تھے۔ جن میں سے اب صرف 10 ہسپتال ایسے ہیں جو انتہائی جزوی طور پر علاج معالجے کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ ان میں ادویات اور طبی آلات سے لے کر پانی و بجلی کی فراہمی تک ہر چیز متاثر ہے۔ جبکہ اسرائیل نے غزہ کے سب سے بڑے ہسپتال ‘الشفائ’ کے ساتھ ساتھ دو مزید ہسپتالوں پر پچھلے کئی روز سے باضابطہ جنگی یلغار کر رکھی ہے۔ الشفائ ہسپتال پر اسرائیلی فوج کے دوسرے بڑے حملے کو آج 15 دن مکمل ہو گئے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی مریضوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ان کو غزہ سے باہر فوری طور پر منتقل کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل جنگ کے دوران بھی 3400 زخمی و مریضوں کو دوسری جگہوں پر منتقل کیا جا چکا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے ماہ مارچ کے شروع میں ایک جائزے میں کہا تھا کہ غزہ میں ایسے 8 ہزار مریض ہیں جن کا علاج اب مقامی طور پر نہیں ہو سکتا۔ تاہم مارچ کے اواخر میں عالمی ادارہ صحت نے اپنی اس جائزہ رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا ہے اور یہ تعداد 9 ہزار کو پہنچ گئی ہے۔غزہ جہاں چھ ماہ سے جنگ جاری ہے۔ وہاں زخمیوں اور مریضوں کی اس حالت کے علاوہ اسرائیل کی طرف سے مسلسل فوجی ناکہ بندی نے غزہ کے رہنے والوں کے لیے خوراک کی ترسیل کو مشکل ترین بنا رکھا ہے۔ جنہیں اقوام متحدہ کے مطابق قحط کا سامنا ہے اور فوری طور پر صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو بڑے انسنای المیے کا خطرہ ہوگا۔

اسرائیلی فوجی انسانی بنیادوں پر غزہ آنے والی امداد کو مختلف حیلے بہانوں سے روکتی ہے۔ اس میں مستقل رکاوٹیں ڈالی ہوئی ہیں اور جو تھوڑی بہت امداد پہنچنے کی اجازت دیتے ہیں اس کی رفتار اور ترسیل کے نظام کو بھی اپنی کارروائیوں کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ گیبریسس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ زخمی فلسطینیوں اور انتہائی نازک حالت کو پہنچے ہوئے مریضوں جن کی تعداد 9000 بتائی گئی، غزہ سے باہر جانے کے راستے کھولے اور ان کی راہ میں رکاوٹیں دور کرے۔

خیال رہے جنگ سے پہلے ہر روز تقریباً 50 سے 100 ایسے مریضوں کو غزہ سے باہر مشرقی یروشلم یا مغربی کنارے میں منتقل کرنے کی اجازت مل جاتی تھی۔ ان میں زیادہ تر مریض کینسر کے ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب اسرائیل نے کینسر کے مریضوں سمیت زخمیوں کے بھی غزہ سے انخلا  کو روک رکھا ہے۔ جبکہ ہسپتالوں کو علاج معالجے کے لیے نہ صرف عملاً ناکارہ بنا دیا ہے بلکہ بہت سے اسپتال بمباری سے تباہ کر دیے گئے ہیں۔