خبردار! ہوشیار! ’این پی آر‘ ہی ’این آر سی‘ ہے

ایڈوکیٹ اے۔ رحمان

 

یکم اپریل سے حکومت نے وہ کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے نتیجے کے طور پر قومی آبادی کا رجسٹر تیار ہوگا اور جو مردم شماری یعنی Census کا ابتدائی عمل ہے۔ یہ کام مقامی یعنی گاؤں، قصبہ، ضلع، صوبہ اور قومی سطحوں پر کیا جائے گا۔ اس سے قبل قومی آبادی رجسٹر کو 2010 میں یعنی 2011 کی مردم شماری سے قبل تیّار کیا گیا تھا اور 2015 میں اس کی تجدید کاری یعنیupdation کیا گیا۔ اب 2021 میں پھر مردم شماری ہونی ہے لہٰذا ملک کے تمام باشندگان کے کوائف حاصل کیے جائیں گے خواہ وہ شہری ہوں یا نہ ہوں۔

قومی آبادی رجسٹر میں ہر اس شخص کا اندراج کیا جاتا ہے جو عمومی طور سے ملک میں رہائش پذیر ہو اور رہائش کی مدّت چھ ماہ ہو اور وہ اگلے چھ ماہ تک رہائش کا ارادہ رکھتا ہو، لیکن اس مرتبہ حکومت کے ذریعے شہریت کے قانون میں کی گئی ترمیم اور اس کے پسِ پشت مسلمانوں کے خلاف ہندوتو وادیوں کے ارادے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے قومی آبادی رجسٹر کے کام کو مشتبہ اور مخدوش ہی سمجھا جانا چاہیے۔ این پی آر کے لیے مردم شماری دفترنے دس سوالات طے کیے ہیں جو ہر شخص کے نام، ولدیت، والدہ کے نام، خاوند/بیوی کے نام، تاریخ پیدائش، جائے پیدائش، قومیت (اس سے مراد شہریت ہی ہے جو شخص مذکور کے دعوے پر درج کر لی جائے گی) رہائشی پتے، تعلیمی قابلیت اور روزگار سے متعلّق ہیں۔ یہ ’بنیادی ذاتی کوائف ‘ سمجھے جائیں گے۔

یہاں میں یاد دلا دوں کہ 18 جون 2014 کو اس وقت کے وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ہدایات جاری کی تھیں کہ این پی آر کے پروجیکٹ کو اُس کے منطقی اختتام یعنی این آر سی کی ترتیب و تدوین تک پہنچایا جائے اور نومبر 2014 میں راجیہ سبھا میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ریاستی وزیرِ داخلہ کرن ریجوجو نے کہا ’’این پی آر ملک میں عمومی طور پر مقیم لوگوں کی شہریت کی تصدیق کے زاویے سے این آر سی کا جانب پہلا قدم ہے‘‘ (یہ جواب وزارتِ داخلہ نے 26 نومبر 2014 کو شائع کیا تھا) لیکن یہ ذہن میں رکھیے کہ مردم شماری کے مقصد کے لیے سوالات کی فہرست الگ اور مختلف ہے۔

آگے بڑھنے سے پیش تر ایک وضاحت بہت ضروری ہے۔ ’’مردم شماری‘‘ انگریزی لفظ Census کا قطعی نادرست ترجمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگ مردم شماری کو ایک ایسی کارروائی سمجھتے ہیں جو کسی ملک کے باشندوں کی تعداد کو شمار کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ در اصل یہ لفظ لاطینی مصدرCensere سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے اندازہ قائم کرنا۔ Census کی ابتدا قدیم رومنوں نے کی تھی جو اس کارروائی کے ذریعے ٹیکس ادا کرنے کے قابل شہریوں اور فوجی خدمت کے لیے موزوں افراد کی فہرست تیار کرتے تھے۔ اسی وقت قدیم یونان میں Demography کے علم کی ابتدا ہوئی، جس کو ’’علم آبادیات‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس کے تحت کسی بھی مخصوص جگہ (شہر، قصبہ، گاؤں) کی آبادی کا مختلف زاویوں سے مطالعہ کیا جا کر ضروری کوائف جمع کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہاں پیدائش و اموات کی شرح کیا ہے، جنسی تقسیم یعنی مرد کتنے اور عورتیں کتنی ہیں، شرحِ خواندگی اور باقاعدہ تعلیم یافتہ افراد کتنے ہیں، کتنے لوگ کام کرتے ہیں اور کتنے بے کار ہیں، کتنوں کی مادری زبان کیا ہے، کتنے لوگ صاحبِ جائداد ہیں، کون سے پیشے اور کاروبار ہیں اور ان میں مصروف افراد کا تناسب کیا ہے، مستقل معذورین کی تعداد کیا ہے، کون سی بیماریاں عمومی طور سے انسانوں پر حملہ آور ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ سترہویں صدی میں ایک برطانوی ماہر شماریات John Graunt نے Demography کو ایک باضابطہ شکل دے کر Census کو جس طور متشکّل کیا وہی آج بھی رائج ہے۔

علم آبادیات بنیادی طور سے تین موضوعات پر اپنا مطالعہ مرکوز کرتا ہے اور تمام سوالات انھی موضوعات کے ذیل میں قائم کیے جاتے ہیں۔ یہ تین موضوعات ہیں پیدائش، اموات اور ہجرت۔ ہجرت سے مراد ہے کسی آبادی سے چلے جانے والے یا کہیں اور سے آ کر وہاں بس جانے والے اشخاص۔ ان کے ذیل میں جن نکات یا شقوں پر اعداد و شمار جمع کیے جاتے ہیں ان کے تعین کے لیے اقوام متحدہ نے رہنما خطوط مرتب کر دیے ہیں۔ Census کسی بھی ملک کے لیے ایک نہایت ضروری کارروائی ہے کیونکہ اسی سے پتا چلتا ہے کہ کہاں کس قسم کی آبادی ہے، وہاں کے باشندوں کے کیا مسائل ہیں، وہاں معاشی حالات کیا ہیں، شہری مسائل کیا ہیں، کس قسم کی بیماریاں عام ہیں لہٰذا کس قسم کی طبی سہولیات درکار ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی تفصیلات اور اعداد و شمار حکومت کو آبادی کے بارے میں مطلوبہ منصوبہ بندی کرنے میں مدد دیتے ہیں اور بین الاقوامی تنظیمیں جیسے اقوام متحدہ، عالمی صحت تنظیم اور ورلڈ بینک وغیرہ دنیا کے تمام ممالک سے مردم شماری کے نتائج اکٹھا کر کے انسانی مسائل کے حل کے لیے طریقۂ کار اور اہداف مقرر کرتے ہیں۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو مردم شماری یعنی Census کسی بھی ملک کے لیے ایک نہایت ضروری عمل ہے۔

ہندوستان میں پہلی مردم شماری 1872 میں ہوئی تھی لیکن وہ پہلا تجربہ ہونے کے باعث کئی لحاظ سے نامکمّل تھی۔ مکمّل مردم شماری 1881 میں ہوئی اور 2011 تک پندرہ مرتبہ یہ عمل دہرایا جا چکا ہے۔ اقوامِ متحّدہ کے مشورے پر دنیا کے بیشتر ممالک بشمول ہندوستان میں ہر دس سال بعد مردم شماری کی جاتی ہے ماسوا جاپان، آسٹریلیا, آئرلینڈ، نیوزی لینڈ اور کینیڈا جہاں یہ عرصہ پانچ سال ہے۔

2021 کی مردم شماری کے لیے سوالات مقرّر کر لیے گئے ہیں اوراس مرتبہ ایک موبائل ایپ کے ذریعے آپ سے موبائل فون پر بھی سوالات پوچھے جائیں گے لہٰذا آپ کہیں بھی ہوں سوالات سے بچ نہیں سکتے۔ ( آپ کا موبائل نمبر اور آپ کی شناخت دیگر کوائف کے ساتھ حکومت کے پاس پہلے سے ہی موجود ہے)۔ 1872 سے لے کر2011 تک کی مردم شماریوں میں پوچھے گئے سوالات میرے سامنے ہیں, ان پر ایک سرسری نظر اور حالیہ مجوزّہ سوالات کا تقابلی جائزہ حکومت کی بد نیتی کو ثابت کر دیتا ہے۔ پہلی ہی مردم شماری میں تعلیم، خواندگی، پیشہ، جسمانی یا ذہنی معذوری اور رہائشی مکان کی کیفیت(پکّا،کچّا یا پھوس کا)، مذہب، ذات اور نسل کے متعلّق سوالات شامل تھے۔ ہر علاقے کی کاروباری، صنعتی یا زرعی کیفیت کی معلومات صوبے کے کلکٹر یا مردم شماری افسرکی ذمّہ داری تھی۔ 1881 میں بیماری اور معذوری سے متعلق کئی اضافی سوالات اور مادری زبان کی بابت بھی پوچھا گیا۔1891 میں پچھلے تمام سوالات میں غیر ملکی زبان سے واقفیت کا سوال شامل کیا گیا۔1901 اور 1911 میں انگریزی سے واقفیت، دست نگری اور ذیلی آمدنی یا پیشے سے متعلّق سوالات کا اضافہ ہوا۔1921، 1931 اور 1941 میں بچوں کی تعداد اور خاندان کے تموّل کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔ 1951 کی مردم شماری نہایت مفصّل تھی جس کی وجہ تھی تین سال قبل تقسیمِ ملک اور آسام میں مہاجرین کا مسئلہ۔ اسی مردم شماری کے دوران آسام کے لیے قومی شہری رجسٹر(NRC ) بنانے کا عمل شروع کیا گیا جسے نہ جانے کیوں ادھورا چھوڑ دیا گیا اور2013 میں سپریم کورٹ نے اپنی نگرانی میں اسے دوبارہ شروع کرایا جس کے نتیجے میں 31 اگست 2019  کو جب وہ رجسٹر شائع ہوا تو اس میں سے آسام میں رہائش پذیر19 لاکھ افراد کے نام غائب تھے۔ لیکن وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔

2021 کی مردم شماری کے لیے NPR کے مذکورہ بالا دس سوالات کے علاوہ کُل 31 سوال قائم کیے گئے ہیں جن میں آٹھ آپ کے رہائشی مکان کی تفاصیل سے متعلّق، آٹھ آپ کے پاس ٹیلی ویژن، ٹرانزسٹر، ریڈیو، کمپیوٹر، موبائل فون، سکوٹر، کار، انٹرنیٹ ہونے نہ ہونے سے متعلّق، ایک جائداد کی ملکیت کے متعلّق، چھ پینے اور نہانے کے پانی، بیت الخلا اور گندے پانی کی نکاسی سے متعلّق، ایک آیا آپ درج فہرست ذات یا قبیلے (SC/ST) سے تعلّق رکھتے ہیں (مذہب کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہے، کیونکہ وہ تو نام سے ظاہر ہو ہی جاتا ہے) بقیہ سوالات نام، جائے پیدائش، تعداد افراد خاندان نیز آپ ایندھن اور گیس کون سی استعمال کرتے ہیں اور عمومی طور پر غلّہ کون سا کھاتے ہیں اور بس۔ والدین کی جائے پیدائش سے متعلق سوالات بھی پوچھے جا سکتے ہیں۔

معاشی کیفیت، بیماری، معذوری، تعلیم، خواندگی، مادری زبان اور مردم شماری کے ذیلی معاملات سے متعلق کوئی سوال نہیں ہے۔ یعنی جتنے بھی سوالات ہیں وہ مردم شماری کے مقاصد سے مطابقت نہیں رکھتے۔

اب اختصار کی خاطر میں نکات میں بات کرتا ہوں۔ اگر آپ کے پاس موبائل فون، آدھار کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، پین کارڈ، ووٹر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں سے ایک چیز بھی ہے تو آپ کے تمام بنیادی کوائف پہلے ہی حکومت کے پاس موجود ہیں (یاد رہے ان میں سے کسی چیز کو بھی شہریت کے ثبوت کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا)۔ موبائل فون کے علاوہ دیگر تمام چیزوں کے لیے آپ کے biometrics یعنی نشاناتِ انگشت وغیرہ بھی لیے جا چکے ہیں۔ ان اکتیس سوالات کے جواب آپ سے لینے کے بعد حکومت کو قومی شہری رجسٹر (NRC ) بنانے کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ ملک میں جتنے غیر ملکی (آسام کے علاوہ) رہائش پذیر ہیں ان سب کی مکمّل تفاصیل وزارتِ داخلہ کے پاس موجود ہیں۔ اگر کچھ غیر ملکی غیر قانونی طور پر ہوئے بھی( آسام کے علاوہ) تو ان کی تعداد پورے ملک میں چند سو سے زائد ہر گز نہیں ہو سکتی۔ ابھی تک یہ صراحت نہیں کی گئی کہ شہریت کے ثبوت کے لیے کون سے دستاویزات طلب یا قبول کیے جائیں گے۔ 1969 سے قبل ملک میں پیدائش اور اموات کا اندراج (رجسٹریشن) کرنے کا نظام نہیں تھا لہٰذ 1969 سے قبل پیدا ہونے والے لوگ اپنے سکول سرٹیفیکیٹ کے علاوہ پیدائش کا کوئی اور سرٹیفیکیٹ مہیّا نہیں کر سکتے۔ اور جنھیں اسکول جانا نصیب نہیں ہوا (مسلمانوں میں تو اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے) وہ اسکول کا سرٹیفیکیٹ بھی نہیں لا سکتے۔ اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ آپ سے (مسلمانوں سے) آپ کے والدین کی جائے پیدائش دریافت کر کے اس کا کوئی ثبوت طلب کیا جائے۔

مردم شماری/این پی آر کے لیے کوائف (data) جمع ہو جانے کے بعد حکومت کے کمپیوٹر پہلے سے موجود data سے اس کا پلک جھپکتے موازنہ کر کے بے شمار مسلمانوں کی شہریت کو ’مشکوک‘ نشان زد کر دیں گے اور اس کے بعد بس اتنا ہو گا کہ آپ کے پاس ایک خط یا نوٹس قسم کی چیز آئے گی کہ فلاں فلاں ثبوت یا دستاویز لے کر فلاں دفتر میں آئیےآپ کی شہریت مشکوک قرار دی گئی ہے۔ (بالکل ویسے ہی جیسا آسام میں ہوا) اور اگر آپ فلاں ثبوت یا دستاویز مہیّا نہ کر سکے تو آپ کو فوراً کسی حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا جائے گا۔ یہی ہونا ہے اور اسی طرح ہونا ہے۔

این آر سی کا ہوّا محض مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر خوف زدہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ شہریت قانون میں ترمیم سے حکومت کے جو ناپاک مقاصد تھے یا ہیں ان کو پورا کرنے کے لیے این آر سی کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ اب تو سب سے اہم ضرورت اور حکمتِ عملی یہی ہو سکتی ہے کہ این پی آر کا مکمّل طور سے بائیکاٹ کیا جائے۔

ایک اور ضروری بات: کچھ دن سے ایک تحریک چل پڑی ہے جس کا نعرہ ہے ’’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘‘۔ یاد رہے کہ این پی آر یا بالفاظ دیگر مردم شماری کے لیے ذاتی کوائف جمع کرنے کے عمل میں آپ سے کوئی کاغذ نہیں طلب کیا جائے گا۔ وہ تو آخری مرحلہ ہے اور اسی طرح طے ہو گا جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔ کوائف مہیّا ہی نہ کیے جائیں یہی فوری حکمتِ عملی ہے۔ اس کے بعد جیسے بھی حالات ہوں ان کے مطابق سوچا جائے گا۔ لیکن ایک مرتبہ این پی آر کا عمل مکمّل ہو گیا تو اس کے بعد پیش آنے والے واقعات سے مفر نہیں ہوگا۔اللہ مدد فرمائے۔

(مضمون نگار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں)