حیرت انگیز: وقف ترمیمی  قانون سے مسلمانوں کے وجود کو خطرہ

متنازعہ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف ہندوسری نارائنا منوادھرم ٹرسٹ  سپریم کورٹ پہنچی

 

نئی دہلی،05 مئی :۔

جہاں ایک طرف متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف مسلما ن بڑے پیمانے پر احتجاج کر رہے ہیں اور سپریم کورٹ میں عرضیوں پر سماعت جاری ہے وہیں حیرت انگیز طور پر آج کیرالہ میں قائم ہندو تنظیم سری نارائنا منوا دھرم ٹرسٹ نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔اپنی عرضی میں تنظیم نے یہ دلیل دی ہے کہ اس قانون سے ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کے وجود کو خطرہ ہے۔

میڈیا  رپورٹوں کے مطابق ٹرسٹ، جو 2023 میں بابا اور فلسفی سری نارائن گرو کی اقدار اور تعلیمات کے مطالعہ اور پھیلانے کے لیے قائم کیا گیا تھا، نے ترمیم شدہ وقف قانون کی دفعات کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کے بیچ میں مداخلت کرنے کی کوشش کی ہے۔ تمام افراد اور  طبقات کی  فلاح و بہبود کی ایک دوسرے پر منحصر نوعیت کے بارے میں سری نارائن گرو کی تعلیمات کو کو دیکھتے ہوئے ٹرسٹ نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ذمہ داران کا کہنا ہے سری نارائنا منوا دھرم ٹرسٹ’ ہندوستان کی مسلم کمیونٹی پر مجموعی طور پر لیے گئے غیر قانونی ایکٹ کے تباہ کن اثرات کو دیکھنے کے لیے خاموش تماشائی نہیں بن سکتی۔ ملک میں ہر فرد کیلئے سماجی انصاف کی وکالت کرتی ہے۔

مداخلت کی درخواست میں، ٹرسٹ نے کہا ہے کہ قانون عملی طور پرہندوستان میں وقف کو ختم کرتا ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ ”  ایکٹ واضح طور پر لیکن غلطی سے وقف کے طریقہ کار کو ایک غیر مذہبی ادارے کے طور پر پیش کرتا ہے، اس طرح اسلامی قانون کی باڈی کو مکمل طور پر وقف کے بنیادی گورننگ قانون کے طور پر حذف کر دیا گیا ہے، اور اسلامی قانون کو اس قانون سے تبدیل کر دیا گیا ہے جو غیر مذہبی ایکٹ کے ذریعہ وضع کیا گیا ہے۔

ٹرسٹ  نے یہ بھی دلیل دی ہے کہ وقف کے طریقہ کار پر حکومت کے قبضے کے نتیجے میں مسلم کمیونٹی کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لیے معاشی اور مالی وسائل  کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ "اس طرح  یہ متنازعہ ایکٹ ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کے وجود کو خطرے میں ڈالتا ہے اور ہندوستان میں اسلام کی بقا کے لیے ضروری معاشی اور مالی وسائل کا سب سے اہم ذریعہ وقف جائیدادیں ہیں  اور یہ صدیوں سے جاری ہے۔ یہ عرضی ” ایڈوکیٹ ویبھو چودھری کے ذریعہ دائر  کی گئی ،عرضی کو ایڈوکیٹ ڈاکٹر جی موہن گوپال نے تیار کیا ہے۔