حکومت ہند ملک کی اخلاقی اور سفارتی روایت کا احترام کرتے ہوئےاسرائیلی ظلم کی مذمت کرے

ملک کی نمایاں مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی گروپس کا فلسطین پر مشترکہ اعلامیہ، بھارتی حکومت اور عالمی برادری سے غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف فوری اور فیصلہ کن اقدام کا مطالبہ

 

نئی دہلی،25 جولائی :۔

غزہ کے حالات انتہائی نا گفتہ بہ ہو گئے ہیں،معصوم بچے اور خواتین بھکمری کے شکار ہیں،مزید امدادی سامان کی راہ تکتے غزہ کے باشندوں پر اسرائیلی میزائیلوں اور بموں کے حملوں نے پوری انسانیت کو ہلاک کر رکھ دیا ہے ۔دنیا بھر کے انصاف پسندوں نے اسرائیلی جبر کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کر دیا ہے ۔ دریں اثنا ملک کی بڑی مسلم تنظیموں، مذہبی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد نے بھی فلسطین کے بحران پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جس میں بھارتی حکومت اور عالمی طاقتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ غزہ میں جاری ظلم و بربریت کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کریں۔

فلسطین کے بارے میں مشترکہ اعلامیہ

ہم، بھارت کی مسلم تنظیموں کے رہنما، مذہبی علماء اور ملک کے امن پسند شہری، غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانیت سوز بحران کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم 20 کروڑ سے زائد بھارتی مسلمانوں اور وطن عزیز کے تمام امن پسند شہریوں کی جانب سے فلسطینی عوام کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم حکومتِ ہند، عالمی رہنماؤں، اور دنیا بھر کے باضمیرانسانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔

فلسطینی عوام پر جاری جارحانہ اسرائیلی حملے منظم نسل کشی کی صورت اختیار کر چکے ہیں، ان حملوں میں گھروں، اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزیں کیمپوں کو نشانہ بنایاجا رہا ہے۔ اکتوبر 2023 سے اب تک تقریباً ایک لاکھ معصوم فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق جارحانہ اسرائیلی بمباری کے سبب غزہ کے 90 فیصد طبی مراکز یا تو پوری طرح تباہ ہو چکے ہیں یا ناکارہ ہو چکے ہیں، اس وقت پورے غزہ میں گنتی کے چند غذائی مراکز بچے ہیں جو بیس لاکھ سے زائد افراد کی ضرورتوں کی تکمیل کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ 17,000 سے زائد بچے یتیم ہو چکے، جبکہ اس جنگ نے پانچ لاکھ سے زائد بچوں کو تعلیم سے محروم کر دیا ہے۔ ایک جانب غزہ میں اتنی سنگین بحرانی کیفیت ہے اور دوسری جانب ہزاروں ٹن خوراک اور طبی امداد سرحدوں پر روک دی گئی ہے، پانی و صفائی کے نظام کی تباہی کے سبب غزہ میں مہلک بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔ اگر فوری طور پر ناکہ بندی ختم نہ کی گئی تو غزہ میں مکمل طور پر قحط سالی کا خطرہ ہے۔

ایسی صورت میں عالمی برادری کی خاموشی نا قابل قبول ہے۔ ہم عالمی طاقتوں اور تمام  ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ عسکری و اقتصادی تعلقات منقطع کریں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کے خاتمہ کے مطالبے کی حمایت کریں۔ ہم تمام مسلم ممالک سے بھی پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل اور امریکہ پر دباؤ بنائیں تاکہ غزہ میں جاری نسل کشی کو روکا جا سکے۔

تاریخی اعتبار سے ہماراملک ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑا رہا ہے؛ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پوری قوت سے اس تاریخی روایت کی پاسداری کریں۔ ہم اپنی حکومتِ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملک کی اخلاقی اور سفارتی روایت کا احترام کرے، کھل کر اسرائیل کی سفاکانہ کارروائیوں کی مذمت کرے، اس کے ساتھ عسکری اور اسٹریٹجک تعلقات کو معطل کرے۔ فلسطینی عوام کی جائز جدوجہد میں ان کا ساتھ دے اور عالمی سطح پر خطہ میں امن و استحکام کی کوششوں میں بھرپور حصہ لے۔ ہم اپنی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انسانی بنیادوں پر غزہ کے مظلومین کے لیے فوری امداد کا انتظام کرے اور غزہ میں خوراک، پانی، ایندھن اور طبی سامان کی ترسیل کے لیے کی جارہی سفارتی کوششوں میں بھرپور حصہ لے۔

ہم عام شہریوں اور اداروں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی مصنوعات اور ان کمپنیوں کا بائیکاٹ کریں جو کسی بھی طریقے سے اس نسل کشی میں شریک ہیں۔ سول سوسائٹیز، تعلیمی ادارے اور مذہبی تنظیمیں ملک میں مظلوموں کی آواز بنیں اور فلسطینی جدوجہد کے خلاف پھیلائے جارہے پروپیگنڈے اور جھوٹے بیانیے کو بے نقاب کریں۔ ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ فلسطین کے لیے جاری پُرامن اور قانونی مزاحمت میں پر جوش شرکت کریں ۔ غزہ کے لیے یکجہتی مارچ، بیداری مہمات، علمی مذاکروں، اور بین المذاہب تقاریب کا اہتمام کیا جائے تاکہ یہ پیغام جائے کہ بھارتی ضمیر خاموش نہیں ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کو ریاستی ہراسانی یا دباؤ کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ہر شہری کو اظہارِ رائے کی آزادی حاصل رہے۔

یہ بات بے حد اہم ہے کہ اس تنازعہ کے سلسلے میں ہمارا موقف وقتی سیاسی مفادات کے بجائے آئین میں درج اصولوں اور ہماری تہذیبی اور اخلاقی قدروں پر مبنی ہو۔  بے گناہ انسانوں کی نسل کشی کے وقت خاموش یا غیر جانب دار رہنا سفارت کاری نہیں بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم غزہ کے عوام کے ساتھ کھل کر یکجہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔ ہمارے اقدامات انصاف کے تقاضوں اور انسانی ہمدردی کی ہماری روایت سے ہم آہنگ ہوں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ، ہمیں ایک ہو کر اس نسل کشی کو روکنے کے لیے آواز اٹھانا ہوگی۔

اس مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کرنے والوں میں درج ذیل اہم شخصیات شامل ہیں:

مولانا ارشد مدنی،صدر جمیعت العلماء ہند،  مولانا خالد سیف اللہ رحمانی،صدر، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ،   سید سعادت اللہ حسینی

امیر، جماعت اسلامی ہند،  مولانا علی اصغر امام مہدی ،امیر، مرکزی جمیعت اہل حدیث  ،مولانا حکیم الدین قاسمی ،جنرل سیکریٹری ، جمیعت العلماء ہند،   مولانا احمد ولی فیصل رحمانی ،امیر شریعت ، امارت شریعہ بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ ، مغربی بنگال،   مفتی مکرم احمد امام ، شاہی جامع مسجد ، فتحپوری، مولانا عبیداللہ خان اعظمی سابق ممبر پارلیمنٹ(راجیہ سبھا)   ملک معتصم خان ،نائب امیر، جماعت اسلامی ہند،   ڈاکٹر محمد منظور عالم ،جنرل سیکریٹری آل انڈیا ملی کونسل   ڈاکٹر ظفر الاسلام خان ،سابق چیئرمین ، دہلی مائنریٹی کمیشن ،عبد الحفیظ

صدر، ایس آئی او آف انڈیا  ، مولانا محسن تقوی،معروف شیعہ خطیب و عالم دین  ، پروفیسر اختر الواسع سابق وائس چانسلر