حکومت ہند اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ روکنے کے لیےاپنااثرورسوخ استعمال کرے
مرکزی بجٹ اقلیتوں کے لیے مایوس کن، طلبہ مدارس کی منتقلی غیرآئینی،جماعت اسلامی ہند کی ماہانہ پریس کانفرنس میں شرکا کا اظہار خیال
نئی دہلی،04اگست:
دنیا بھر کے انصاف پسند لوگ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور ظلم و بربریت کے خلاف مزاحمت میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جماعت ہندوستان کے لوگوں اور حکومت سے کہنا چاہتی ہے کہ فلسطین کی حمایت کرنا محض انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی آزادی کی جدو جہد اور اس کے آئین کے بنیادی اصولوں کا بھی تقاضہ ہے کہ ہر قسم کی سامراجی ناانصافیوں کے خلاف جدو جہد اور مظلوم کی آزادی کا ساتھ دیں۔ چنانچہ ہندوستان اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کی اس نسل کشی کو روکنے کی کوشش کرے۔
مذکورہ خیالات کااظہار امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی نے نئی دہلی میں واقع جماعت اسلامی ہند کے مرکزی دفتر میں منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس میں کیا ۔پریس کانفرنس میں نائب صدر پروفیسر سلیم انجینئر اور دیگر موجود تھے۔
انہوں نے غزہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 38 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک کیے جا چکے ہیں جن میں نصف سے زیادہ بچے اور خواتین ہیں۔ غزہ میں اسکولوں، اسپتالوں، امدادی کیمپوں ، اقوام متحدہ کے مشنوں ، صحافیوں، امدادی کارکنوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ فلسطینیوں کی یہ تباہی ، مہذب کہی جانے والی دنیا کی نظروں کے سامنے ہورہی ہے،مگر وہ تماشائی بنے ہوئے ہیں۔البتہ وہاں کے عوام فلسطین کے حق میں احتجاج کررہے ہیں، جماعت عوام کے حوصلوں کو سراہتی ہے۔
اس موقع پر امیر جماعت نے ملک کے اندر رونما ہونے والے واقعات اور حکومت کی کارروائی پر بھی بات چیت کی ۔ حالیہ بجٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت کا حالیہ بجٹ 2024-25 عوام کی توقعات کو پورا کرتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ اس میں غریبوں ، پسماندہ طبقات، ایس سی ، ایس ٹی اور مذہبی اقلیتوں کے لیے کوئی خاص راحت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ صحت کے لیے جی ڈی پی کا کم از کم 4 فیصد اور تعلیم کے لئے 6 فیصد رقم مختص ہونی چاہئے مگر یہ بالترتیب 1.88 اور 3.07 فیصد ہی ہے۔
وزارت برائے اقلیتی امور کے لیے کل بجٹ کا صرف 0.06 فیصد ہی منظور کیا گیا ہے۔ جبکہ اقلتیوں کی فلاح و بہبود کے لیے جی ڈی پی کا کم از کم 1 فیصد ہونا چاہئے۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ ملک میں بلا سودی مائیکرو فنانس اور سود سے پاک بینکنگ نظام کو فروغ دیا جائے۔
’براڈ کاسٹنگ سروسز ( ریگولیشن ) بل 2024 ‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ” عوام خصوصا کانٹینٹ کریٹرس میں تشویش پائی جارہی ہے۔ اس سے سینسرشپ اور پریس پر پابندیوں کے راستے کھلنے کے امکانات پیدا ہورہے ہیں۔ جماعت چاہتی ہے کہ مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات تمام متعلقہ افراد اور اداروں کے ساتھ مل بیٹھ کر بل کی تمام شقوں پر مشاورت کرے اوراس میں مناسب ترمیم کرکے ایک جامع بل سامنے لائے۔ اترپردیش میں مدرسوں کی شناخت اور اس کی حیثیت کو جبرا تبدیل کرنے اور طلباءکے تعلیمی امور میں مداخلت پر بات کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ” دینی تعلیم حاصل کرنا، نہ صرف ہر شہری کا بنیادی حق ہے، بلکہ اس سے ایک بہتر معاشرہ بھی وجود میں آتا ہے۔ ایسے میں حکومت یا اس کے ماتحت کسی محکمے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مدارس میں مفت تعلیم حاصل کرنے والے طلباءکو زبردستی وہاں سے نکال کرکسی سرکاری اسکول میں داخلہ لینے پر مجبور کرے۔ ملک کی دفعہ 30(1) میں مذہبی اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور نظم و نسق کے بنیادی حقوق حاصل ہونے کی ضمانت دی گئی ہے۔
کیرالہ کے وائناڈ ضلع میں متعد مقامات پر مٹی کے تودے گرنے کی وجہ سے ہونے والے حادثے پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ ہم وفات پانے والوں کے خاندانوں سے تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔ حکومت ایسے حادثات سے بچنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔