حقوق انسانی کے معروف کارکن اوردہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر سائی باباکا انتقال
ماؤ نوازوں سے مبینہ تعلقات کے الزام میں حکومت نے گرفتار کیا تھا،لمبے عرصے تک بیماری کی حالت میں قید میں رہے،گزشتہ7 ماہ قبل عدالت نے بری کر دیا تھا
نئی دہلی ،13 اکتوبر :۔
ماؤنوازوں سے مبینہ تعلقات کے معاملے میں گرفتار دہلی یونیور سٹی کے سابق پروفیسر سائی بابا کا ہفتہ کو دہلی کے ایک سرکاری استپال میں انتقال ہو گیا ان کی عمر 54 سال تھی۔ وہ گال بلاڈر کے انفکشن سے متاثر تھے اور دو ہفتہ پہلے ان کا آپریشن ہوا تھا جس کے بعد کئی پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں۔
چونکہ سائی بابا تعلیم یافتہ حلقے میں دانشور اور انٹلایکچول کے طور پرمعروف تھے اس لئےتعلیمی حلقے میں ان کے انتقال سے غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے ایم ایل اے سمباشیو راؤ نے سائی بابا کے انتقال پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سماج کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسو سی ایشن (آئیسا) نے بھی سائی بابا کے انتقال پر غم کا اظہار کیا ہے اور ان کی بہادری اور انصاف کے تئیں ان کے عزم کی تعریف کی ہے۔
واضح ہو کہ سائی بابا نے اس سال اگست میں الزام لگایا تھا کہ ان کے جسم کے بائیں حصے کے فالج مار جانے کے باوجود اتھاریٹی 9 مہینے تک انہیں اسپتال نہیں لے گیا اور انہیں ناگپور سنٹرل جیل میں صرف درد کم کرنے کی دوائیں دی گئیں جہاں وہ 2014 سے اس معاملے میں گرفتار کیے جانے کے بعد بند تھے۔
انگریزی کے سابق پروفیسر سائی بابا کو ظلم اور حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں ماؤ نوازوں سے تعلقات کا الزام عائد کرتے ہوئے جیل میں ڈال دیا تھا ۔ ایک لمبے عرصے کے بعد گزشتہ سات ماہ قبل عدالت نے انہیں بری کر دیا تھا ۔قید کے ایام میں انتظامیہ پر انہوں نے ظلم و زیادتی اور علاج کا مناسب بندوبست مہیانہ کرنے کا بھی الزام عائد کیا تھا۔
غور طلب ہے کہ بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ نے نکسلیوں سے مبینہ رشتہ کے معاملے میں جی این سائی بابا اور پانچ دیگر کو مارچ میں بری کر دیا تھا اور کہا تھا کہ استغاثہ ان کے خلاف معاملہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ عدالت نے ان کی عمر قید کی سزا منسوخ کر دی تھی۔