امریکہ میں عمر رسیدہ عالم دین جیل سے رہا، اپیل زیر التوا

11 ستمبر 2001 کے بعد شمالی ورجینیا کے ایک عالم دین کو، جنھیں جہاد کی ترغیب دینے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، منگل کو دہشت گردی کے اس معاملے میں جیل سے رہا کر دیا گیا تاہم وہ گھر میں نظر بند رہیں گے۔

56 سالہ علی التمیمی 15 سال  سلاخوں کے پیچھے رہنے کے بعد ورجینیا میں اب پنےگھر میں قید رہیں گے ، جب کہ ان کی اپیل پر شنوائی  ہوگئی ہے۔

الیگزینڈریہ میں وفاقی عدالت میں التمیمی کے 2005 کے مقدمے کی صدارت کرنے والی جج لیونی ایم برنکیمہ نے گزشتہ ماہ فیصلہ دیا تھا کہ التمیمی کو 14 دن کے وقفے کے بعد رہا کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان  کی اپیل  کو دیکھتے ہوئے ان کی سزا پرنظرثانی کا قوی امکان ہے اور وہ ہے ناول کورونا وائرس سے متاثر ہونے پر پیچیدگیوں کا ایک بڑا خطرہ۔

انہوں نے لکھا ،’’اس استثنا کی وجہ یہ کہ ان کی مسلسل نظربندی مناسب نہیں ہے۔‘‘انھوں نے کہاکہ’’وہ پہلے ہی بڑی مدت قید میں گزار چکے ہیں۔‘‘

اطلاعات کے مطابق مذکورہ عالم دین کی واحدقانون شکنی 2018 کا واقعہ تھا جس میں انھوں نے ایک گارڈ کو کہا تھا کہ اگر اسے کسی اور قیدی نے دوبارہ دھمکی دی تو وہ اس شخص کو ماریں گے۔ التمیمی پر 20 ڈالر جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔

ڈیفنس اٹارنی جوناتھن ٹورلی نے تصدیق کی کہ انہوں نے التمیمی کو کولوراڈو کی ایک زیادہ سے زیادہ سیکیورٹی والی جیل سے اٹھایا اور منگل کے روز ورجینیا روانہ کردیا لیکن اس پر مزید کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

 

فالس چرچ کی ایک مسجد کےممتاز خطیب اور ماہر حیاتیات ، التمیمی نے نائن الیون حملوں کے بعد اپنے پیروکاروں کے ایک چھوٹے سے گروپ کو بتایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے خلاف بھی بیرون ملک لڑائی میں حصہ لیا جائے۔ اس گروپ کے ممبران نے  ان کے الفاظ کو ذہن نشیں کیااورجینیا کے جنگل میں پنٹ بال کھیل کر تربیت حاصل کی۔ لیکن در حقیقت کوئی بھی افغانستان نہیں گیا اورنہ امریکی فوجیوں کے خلاف جنگ کی۔