جھانسی میڈیکل کالج آتشزدگی:اپنی جڑواں بیٹیوں کو کھونے والے یعقوب نے سات معصوموں کی جان بچائی
ہمیر پور ،راٹھ شہر کے سکندر پورہ علاقے میں ٹھیلہ لگا کر گزر بسر کرنے والے یعقوب کی بہاردی کا ہر طرف چرچہ ،یعقوب کو اپنی معصوم بیٹیوں کے کھونے کا غم بھی ہے
نئی دہلی ، 18 نومبر:
اتر پردیش کے جھانسی میڈیکل کالج میں حالیہ آتشزدگی کے اندوہناک سانحہ میں اب تک 12 معصوم بچوں کی موت ہو چکی ہے ۔یہ واقعہ اتنا اندوناک تھا کہ موقع پر موجود لوگ مدد کیلئے چیخ پکار کررہے تھے ،بد حواسی کے عالم میں بھاگ دوڑ رہےتھے مگر استپال انتظامیہ کی جانب سے فائرسیفٹی کے ناقص انتظام کے سامنے ان کی بھاگ دوڑ کچھ کام نہیں آئی ۔اور دس معصوم جل کر ہلاک ہو گئے ۔ اس بد حوسی اور افراد تفری کے عالم میں ہمیر پور کی تحصیل راٹھ کے رہنے والے یعقوب نے انتہائی بہادری اور ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈال کر 7 نومولود بچوں کی جان بچائی۔ ان کے اس کارنامے کی ہر طرف چرچہ ہے۔ لیکن اس بہادری کے باوجود وہ اپنی جڑواں بیٹیوں کو نہ بچا سکے۔ اس واقعہ نے سب کے دلوں کو دہلا دیا۔
راٹھ شہر کے سکندر پورہ علاقے میں ٹھیلا لگا کر اپنے خاندان کی کفالت کرنے والے یعقوب اپنی بیٹیوں کے علاج کے لیے جھانسی میڈیکل کالج میں تھے۔ 9 نومبر کو ان کی اہلیہ نجمہ نے جڑواں بیٹیوں کو جنم دیاتھا۔بیٹیوں کو سانس لینے میں دشواری کی وجہ سے دونوں لڑکیوں کو جھانسی میڈیکل کالج کے ایس این سی یو وارڈ میں داخل کرایا گیا تھا۔ آگ لگنے کی خبر سنتے ہی یعقوب نے وقت ضائع کیے بغیر اپنی والدہ بلقیس اور بہنوئی سونو کے ساتھ وارڈ کی کھڑکی کا شیشہ توڑا اور اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے منہ پر کپڑا باندھ ایک ایک کر سات نوزائیدہ بچوں کو بحفاظت باہر نکالا۔ یعقوب نے بتایا، اس وقت صرف معصوموں کا خیال تھا۔ یہ نہیں دیکھا کہ میری بیٹیاں ان میں شامل ہیں یا نہیں۔ جب میں نے اپنی بیٹیوں کے بارے میں سوچا، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔آگ بجھنے کے بعد بھی یعقوب اور اس کی بیوی نجمہ نے ساری رات اپنی بیٹیوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ لیکن اگلے دن لاشوں کی شناخت ہوئی تو پتہ چلا کہ جڑواں بیٹیاں اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔
یعقوب منصوری نے حادثہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "یہ ایک زبردست آگ تھی جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ ہر طرف افرا تفری کا عالم تھا،ہر طرف دھواں اور آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے ،بچانے کی کوشش بہت مشکل تھی۔ تاہم وہ ایک کھڑکی توڑ کر اندر داخل ہوئے۔
یعقوب نے کہا، "میں اس وارڈ میں داخل نہیں ہو سکا جہاں میری بیٹیوں کو داخل کیا گیا تھا کیونکہ آگ بہت شدید تھی۔ دوسرے والدین نے بھی کوشش کی لیکن وہ بھی ناکام رہے۔ پھر ہم نے دوسرے وارڈوں سے شیر خوار بچوں کو بچانا شروع کیا۔ میں نے سات بچوں کو باہر نکالا۔” یعقوب نے بتایا کہ”میری دو بیٹیاں تھیں۔ میں نے انہیں کھو دیا، ۔ ان کی لاشوں کی شناخت بعد میں کی گئی۔
جہاں لوگ یعقوب کے دلیرانہ عمل پر فخر محسوس کر رہے ہیں وہیں ہر کوئی ان کی بیٹیوں کی موت سے غمزدہ ہے۔ یعقوب کو جہاں اپنی بیٹیوں کے کھونے کا انتہائی درد و غم ہے وہیں ان کے دل کے کسی کونے میں سات معصوم بچوں کو بچانے پر اطمینان بھی ہے۔اپنی بے لوث بہادری سے یعقوب نے سات گھروں کے چراغ کو بجھنے سے بچا لیا لیکن اپنی جگر گوشوں کو کھو دیا۔
پورے علاقے میں یعقوب کی بہادری کے چرچے ہو رہے ہیں۔ لیکن ایک باپ کا دکھ اور اپنی بیٹیوں کو کھونے کا دکھ اس کی آنکھوں میں صاف نظر آتا ہے۔ مقامی لوگ اس واقعہ کو لے کراسپتال انتظامیہ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ آگ لگنے کے وقت سیکورٹی کے خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے اور وارڈ میں الرٹ سسٹم کے کام نہ کرنے پر لوگوں میں غم و غصہ ہے۔