جم ٹرینر وسیم قریشی کی موت کا معاملہ : چھ پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم
عدالت نے پولیس کی حادثے کی کہانی کو فرضی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پہلی نظر میں قتل معلوم ہوتا ہے، سب انسپکٹر شرد سنگھ، کانسٹیبل سنیل سینی اور پروین سینی کے ساتھ تین دیگر پولیس اہلکار شامل

نئی دہلی ،06 جولائی :۔
مسلم جم ٹرینر وسیم قریشی کی مشتبہ موت کے تقریباً دس ماہ بعد ہریدوار کی ایک جوڈیشل مجسٹریٹ عدالت نے واقعہ میں مبینہ طور پر ملوث چھ پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جوڈیشل مجسٹریٹ اویناش کمار شریواستو نے 2 جولائی کو جاری اپنے حکم میں کہا کہ یہ مقدمہ پہلی نظر میں قتل معلوم ہوتا ہے اور کوتوالی گنگ نہر پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) کو 24 گھنٹے کے اندر ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی ہے۔ جن افسران کو نامزد کیا گیا ہے ان میں سب انسپکٹر شرد سنگھ، کانسٹیبل سنیل سینی اور پروین سینی کے ساتھ تین دیگر پولیس اہلکار شامل ہیں۔
عدالت نے نتیجہ اخذ کیا کہ واقعے کی مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے، مشاہدہ کیا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں وسیم کے جسم پر زخموں کے چھ نشانات دکھائے گئے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے تالاب میں پھینکنے سے پہلے بے دردی سے مارا گیا تھا۔ یہ حکم وسیم کے کزن علاؤالدین قریشی کی جانب سے دائر درخواست کے بعد آیا۔
خاندان کے مطابق، وسیم، جو کہ جم ٹرینر کے طور پر کام کرتا تھا، 24-25 اگست 2024 کی رات اپنی بہن کے گھر سے واپس آرہا تھا، جب اسے مادھو پور گاؤں میں ایک تالاب کے قریب ملزم افسران نے روک لیا۔ ان کا الزام ہے کہ پولیس والوں نے اسے لاٹھیوں سے مارا اور تالاب میں پھینک دیا۔ جب وسیم نے باہر نکلنے کی کوشش کی تو مبینہ طور پر اہلکاروں نے اسے روکا، یہاں تک کہ جب انہوں نے مدد کرنے کی کوشش کی تو انہیں بندوقوں سے ڈرایا۔
لواحقین کو اس کے جسم پر کئی زخم ملے، بعد میں پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس کی تصدیق ہوئی۔ پولیس نے اس پورے معاملے میں گمراہ کرنے کی کوشش کی اور پولیس نے دعویٰ کیا کہ وسیم گشتی ٹیم کو دیکھنے کے بعد بھاگنے لگا اوراپنے اسکوٹر پر قابو کھو بیٹھا اور گر گیا۔ پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا تھاکہ انہیں اس کی گاڑی میں گائے کا گوشت ملا تھا جبکہ پولیس اس کے شوہد پیش کرنے سے قاصر رہی۔انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ وہ حادثاتی طور پر ڈوب گیاتھا،اور پانی میں گرنے سے پہلے کسی ٹھوس چیز سے ٹکرانے سے زخمی ہوگیاتھا۔
تاہم عدالت نے پولیس کے تا دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جائے وقوعہ پر افسران کی موجودگی اور وسیم کے زخمی ہونے کی نوعیت جان بوجھ کر تشدد کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
دی کوئنٹ سے بات کرتے ہوئے علاؤالدین قریشی نے زور دے کر کہا کہ یہ کوئی من گھڑت کیس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہمارے پاس ویڈیوز سمیت شواہد موجود ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ وسیم کو پولیس نے بے دردی سے مارا اور پیٹا، یہ سچ اور انصاف کی لڑائی ہے۔۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ وسیم کو اس کی مسلم شناخت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور گائے کے ذبیحہ کا جھوٹا الزام لگایا گیا، اس الزام کی اس نے سختی سے تردید کی۔
وسیم سب سے بڑا بیٹا تھا اور اپنے خاندان کا سب سے بڑا کمانے والا تھا۔ اس کا جم اب اس کا چھوٹا بھائی چلا رہا ہے، جب کہ ان کے والد نسیم مزدوری کرتے ہیں۔ علاؤالدین نے مزید کہا کہ پولیس کی جانب سے خاندان کو دھمکیاں اور ہراساں کیا گیا، یہاں تک کہ ان پر دباؤ ڈالنے کی بظاہر کوشش میں ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بھی درج کیے گئے۔
علاؤالدین نے بتایا کہ "جب ہم نے پولیس سے رابطہ کیا تو ہمیں دھمکیاں دی گئیں۔ انہوں نے وسیم کے والد کو بھی کہا کہ وہ اس کی داڑھی کاٹ دیں گے۔ عدالتی حکم کے باوجود، ہریدوار کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (دیہی)، شیکھر چندر سویل نے تصدیق کی کہ ابھی تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ عدالت کی ہدایت پر روک لگا دی گئی ہے۔تاہم قریشی کے وکیل سجاد احمد نے تصدیق کی کہ وہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اگلی عدالتی سماعت میں اسٹے کو ہٹانے کی اپیل کریں گے۔