جموں و کشمیر انتظامیہ نے علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے 25 کتابوں پر پابندی لگائی
جن مصنفین کی کتابوں پر پابندی عائد کی ہے ان میں ماہر آئین اور معروف دانشور اے جی نورانی اوربکر پرائز یافتہ مصنفہ ارندھتی رائے جیسی شخصیات شامل ہیں

نئی دہلی،07اگست :۔
ایک طرف کشمیر میں چنار بک فیسٹول جاری ہے ،کتابوں کے پڑھنے اور لوگوں میں اس کا شوق پیدا کرنے کیلئے مختلف طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔02 اگست سے 10 اگست تک چلنے والے اس کتاب میلہ میں متعدد موضوعات پر قارئین کی دلسچپی کے لئے مذاکرے منعقد کئے جا رہے ہیں وہیں اسی درمیان جموں و کشمیر حکومت کتابوں پر پابندی کا بھی اعلان کر رہی ہے۔ جموں و کشمیر انتظامیہ نے کشمیر میں علیحدگی پسندی کو فروغ دینے’ اور ‘ہندوستان کے خلاف تشدد بھڑکانے’ کے الزام میں نامور مصنفین کی 25 کتابوں کو ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سلسلے میں منگل (5 اگست) کو جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ کی طرف سے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی سربراہی میں جاری کیے گئے ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ کتابیں جموں و کشمیر کے بارے میں ‘غلط بیانیہ’ پیش کرتی ہیں جو نوجوانوں کو ‘تشدد اور دہشت گردی’ کی طرف گمراہ کر رہی ہے۔
دی وائر کی رپورٹ کے مطابق یہ آرڈر 2019 میں بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کی چھٹی سالگرہ کے موقع پر جاری کیا گیا ہے۔ تازہ ترین فیصلے میں جن کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان میں سے کچھ پبلشنگ انڈسٹری کے بڑے ناموں جیسے پینگوئن، بلومسبری، ہارپر کولنز، پین میک ملن انڈیا، روٹلیج اور ورسو بکس نے شائع کی ہیں اور اب محکمہ داخلہ کے حکم کا مطلب ہے کہ یہ پبلشرز اب ان کتابوں کو تقسیم یا دوبارہ پرنٹ نہیں کر سکیں گے۔
رپورٹ کے مطابق ان کتابوں کی فہرست میں ہندوستانی آئینی ماہر اور دانشور اے جی نورانی کی بہت مشہور کتاب ‘دی کشمیر ڈسپیوٹ’، برطانوی مصنفہ اور مؤرخ وکٹوریہ شوفیلڈ کی ‘کشمیر ان کانفلیکٹ – انڈیا، پاکستان اینڈ دی ان اینڈنگ وار’، بکر پرائز یافتہ ارندھتی رائے کی ‘آزادی’ اور لندن کے اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر سمنتر بوس کی ‘کنٹسٹیڈ لینڈز’ شامل ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ محکمہ داخلہ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ ان کتابوں کو انڈین سول ڈیفنس کوڈ 2023 کی دفعہ 98 کے مطابق ‘ضبط’ قرار دیا جانا چاہیے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کے کتابوں پر عائد کی گئی پابندی کی مخالفت بھی کی جا رہی ہے ۔محکمہ داخلہ کے تازہ حکم نامے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئےآل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ’دانشوروں اور نامور مؤرخین کی کتابوں پر پابندی لگانے سے تاریخی حقائق اور کشمیری عوام کے زندہ یادوں کا ذخیرہ مٹ نہیں جائے گا، یہ صرف اس طرح کے آمرانہ اقدامات کے پیچھے چھپےلوگوں کے عدم تحفظ اور محدود سمجھ کو بے نقاب کرتا ہے، اور اپنی ادبی وابستگی کو ظاہر کرنے کے لیے چل رہے کتاب میلے کے فخریہ انعقاد میں تضاد کو بھی اجاگر کرتا ہے!’
راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمنٹ منوج کمار جھا نے لکھا کہ اس طرح کا عمل خیالات، بحث اور اختلاف کے تئیں بنیادی خوف کو ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے کہا، ‘کتابوں پر پابندی کسی بھی جمہوریت میں انتہائی رجعت پسندانہ قدم ہے۔ یہ خیالات، بحث اور اختلاف کے تئیں بنیادی خوف کی عکاسی کرتا ہے۔ جمہوریت خیالات کے آزادانہ تبادلے پر پروان چڑھتی ہے، یہاں تک کہ ان خیالات پر بھی جو ‘سرکاری سچائی’ سے متفق نہ ہوں یا اس کی تنقید کرتے ہیں۔ جس لمحے ہم کسی کتاب پر پابندی لگاتے ہیں، وہ اس کی طاقت کا نہیں بلکہ عدم تحفظ کی نشاندہی کرتی ہے۔