جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان کے اجلاس میں ملکی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال
جامعہ نگر واقع مرکزی دفتر میں26 تا30 اپریل تک منعقد ہ مجلس نمائندگان کے اجلاس میں متعدد قراردادیں منظور کی گئیں
نئی دہلی،04مئی :۔
ملک کی معروف ملی تنظیم جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان کا اجلاس گزشتہ دنوں 26 تا 30 اپریل 2023 تک جماعت اسلامی ہند کے مرکزی دفتر واقع جامعہ نگر میں منعقد ہوا۔اس دوران جماعت اسلامی ہند کے امیر کے طور پر دوبارہ سید سعادت اللہ حسینی کودوبارہ منتخب کیا گیا ۔دریں اثنا مجلس نمائندگان کے اجلاس میں ملک میں متعدد قومی اور ملی مسائل پر قراردادیں میں منظور کی گئیں، جس میں ملک کے اندر جمہوریت و جمہوری اداروں کی پامالی، بڑھتا ہوا تیز رفتار کرپشن، نفرت و فرقہ پرستی کا بڑھتا رجحان، ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی منظوری کا مسئلہ اور سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی جیسے ملکی و بین الاقوامی امور زیر بحث آئے ۔
درج ذیل قراددادیں پاس کی گئیں جن کی تفصیلات یہ ہیں:
جمہوریت و جمہوری اداروں کی پامالی:
جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان کا یہ اجلاس ملک میں جمہوری قدروں کے تیزرفتار زوال پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ او ر متعدد ریاستوں میں بغیر مناسب بحث و مباحثے کے اور مسلمہ ضابطوں اور روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اہم قوانین محض صوتی ووٹوں کے ذریعے منظور کئے جارہے ہیں۔ عدالتوں کی آزادی بھی شک کے دائرے میں آنے لگی ہے اور نیم آزاد اور خود مختار جمہوری اداروں، جیسے الیکشن کمیشن آف انڈیا، ریزرو بینک آف انڈیا وغیرہ پر بھی حکومتوں کا تسلط بڑھتا جارہا ہے۔ یہ شکایت عام ہے کہ سرکاری ایجنسیوں کا استعمال،مخالفین کی آوازوں کو دبانے کے لئے کیا جارہا ہے- اختلاف رائے جو جمہوریت کی روح ہے، اب ایک جرم بنتا جارہا ہے۔ میڈیا جو ملک کا ضمیر ہوتا ہے، اب تیزی کے ساتھ اپنا یہ کردار کھوتا اور حکومت کا ترجمان بنتا جارہا ہے۔ قانون کی حکمرانی تیزی کے ساتھ پامال ہورہی ہے۔ پولس کی موجودگی میں قتل کی وارداتیں ،عدالت سے ماورا سزا دینے کا عمل، فرضی انکا¶نٹرس، زیر حراست قتل، سنگین جرائم میں ملوث سزا یافتہ مجرمین کی رہائی، فرقہ پرست عناصر کی جانب سے کھلے عام نسل کشی وعصمت دری کی دھمکیاں اور منافرت پرمبنی بیانات یہ سب واقعات ہر انصاف پسند شہری کے لیے اضطراب کے باعث ہیں۔
جماعت اسلامی ھند کی مجلس نمائندگان کا یہ اجلاس ملک کے تمام شہریوں کو متوجہ کرتا ہے کہ وہ اس صورت حال کی سنگینی اور اس کے دوررس نقصانات کو محسوس کریں۔ان ہلاکت خیز رجحانات کے خلاف پرزور آواز بلند کریں۔ حکومتوں پر دباو ڈالیں کہ وہ قانون اور دستور نیز دستور کی قدروں کا احترام کریں۔ وقتی سیاسی مفادات کے لیے ملک کے مفاد کو داو پر نہ لگائیں۔ عدالتوں اور دیگر خود مختار جمہوری اداروں کے عہدیداران کسی قیمت پر اپنی آزادی کو مجروح ہونے نہ دیں اور خوف و لالچ سے اوپر اٹھ کر، اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں۔یہ اجلاس یہ حقیقت یاد دلاتا ہے کہ ہر منصب عارضی ہے اور ہر انسان فانی ہے۔ حقیر مفادات کی خاطر اعلیٰ اصولوں کو پامال کرنے والے نہ اس دنیا میں خوش رہ سکتے ہیں اور نہ مرنے کے بعد کی زندگی میں۔
ملک میں بڑھتا تیز رفتار کرپشن:
مجلس نمائند گان کا یہ اجلاس مختلف شعبہ ہائے زندگی میں پھیلتے کرپشن کی شدت پر تشویش کا اظہار کرتاہے۔ پرائس واٹر ہا س کوپر
( Price Waterhouse Coopers) کے سروے کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں ملک کے 95 فیصد تجارتی اداروں میں مختلف نئے اقسام کے جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ تازہ ترین’ کرپشن پرسپشن انڈیکس میں ہندوستان کی 85 ویں رینکنگ بھی اس بات کی غماز ہے کہ ہم ابھی تک اس سماجی لعنت کو کم کرنے میں ناکام ہیں، جس کا لازمی اثر سرکاری خزانے اور حکومت کی رفاہی اسکیموں پر پڑتا ہے۔ آربی آئی نے بھی 2021 اور 2022 میں 1.97لاکھ کروڑ روپے کے بینکنگ فراڈ کی اطلاع دی ہے۔ یہ فراڈ بینکنگ انڈسٹری کے ضابطوں پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ حکومت کے ذریعہ بینکوں کے 10 لاکھ کروڑ روپے کے این پی اے(Non Performing Assets) کو رائٹ آف کرنے پر بھی اجلاس کو شدید تشویش ہے۔ اس سے قرض کے نظم ونسق میں بڑی خرابی کی نشاندہی ہوتی ہے جو اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ کاروباراور صنعتوں کے لئے قرض دینے کا کوئی متبادل طریقہ وضع کیا جائے اور بلا سودی قرضوں کے نظام پر بھی پالیسی ساز ادارے غور کریں۔
الکٹورل بانڈز کے توسط سے سیاسی فنڈنگ کے طریقہ کار پر بھی جماعت تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ رپورٹس کے مطابق الیکٹورل بانڈ اسکیم سے اب تک سیاسی پارٹیوں کو حاصل کل رقم 10,791 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے، جس کا بہت بڑا حصہ صرف ایک سیاسی جماعت کو حاصل ہوا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو تجارتی اداروں کی جانب سے غیر شفاف طریقے سے دولت کی یہ فراہمی کرپشن ہی کی ایک شکل ہے اور جمہوری نظام کو متزلزل کر رہی ہے۔
اس مجلس کا خیال یہ ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں سرایت کر گئے کرپشن کی اصل وجہ وہ اخلاقی پستی اور جواب دہی کے احساس سے بے پرواہی ہے، جسے تمام سیاسی جماعتیں فروغ دے رہی ہیں۔ اخلاقی و روحانی قدروں اور خدا کے سامنے جواب دہی کے احساس کے بغیر ذمہ رارانہ رویوں کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔ اجلاس کا مطالبہ ہے کہ اس مسئلے کو ملک کے تمام سنجیدہ افراد اورگروہ اہمیت دیں اور سیاسی وفاداریوں اور وابستگیوں سے اوپر اٹھ کر اس پر عوامی رائے بیدار کرنے کی مسلسل کوشش کریں۔ جماعت کا مطالبہ ہے کہ کرپشن کے خاتمہ کے لئے حکومت ٹھوس اقدامات کرے، تفتیشی ایجنسیوں کی توانائیوں کو سیاسی مخالفین پر لگانے کے بجائے سیاسی تفریق کے بغیر اصل مجرموں پر لگائے، الیکٹورل بانڈز کے طریقے کو فعال بنائے اور لوک پال کے ادارے کو جو بڑے ہنگامے کے بعد قائم ہوا تھا اور اب منظرنامے سے غائب ہے، فعال اور کارگر بنائے۔
نفرت و فرقہ پرستی کا بڑھتا رجحان:
مجلس نمائندگان کا یہ اجلاس ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اور بڑھتی ہوئی منافرت پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ جماعت کا احساس ہے کہ اقتدار پر پہنچنے اور اس پر قبضہ جمائے رکھنے کے لئے آسان اور موثر ذریعے کے طور پر فرقہ پرستی اور نفرت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ میڈیا، تعلیم گاہیں اور عوامی ادارے، اس کے لئے بطور آلہ کار کے استعمال ہورہے ہیں۔اس صورت حال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عام سیاست دانوں کے علاوہ بعض مرکزی و ریاستی وزراءبھی نفرت و فرقہ پرستی کے مشعل بردار بن گئے ہیں اور کمسن بچوں اور نوجوان لڑکوں لڑکیوں تک کو اس مذموم مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
نفرت اور فرقہ پرستی دو دھاری تلوار کے مانند ہے۔ ایک طرف حصول اقتدار کا زینہ بھی ہے اور دوسری طرف ملک کے حقیقی مسائل کے حل میں حکومت کی ناکامیوں کی پردہ پوشی بھی۔ نفرت کی آگ بھڑکانے کے بھیانک نتائج جو پورے ملک کو اور خصوصاً نئی نسل کو بھگتنے پڑیں گے، ان سے حقیر وقتی مفاد کے تحت آنکھیں بند کرلی گئی ہیں۔مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اقلیت اور دلت آبادیاں بھی ان فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہیں۔
مجلس نمائندگان بر سر اقتدار طبقہ کو خصوصاً اور اہل وطن کو عموماً اس صورت حال کی سنگینی کا احساس دلانا ضروری سمجھتی ہے۔ نفرت کی یہ آگ کبھی بھی چند طبقات تک محدود نہیں رہتی۔ یہ آگ پھیلے گی تو پورا ملک اس کی زد میں آئے گا۔ نفرت پر مبنی تقاریر کے سلسلے میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے حالیہ احکام کا اجلاس استقبال کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ سپریم کورٹ اپنے ان احکام پر بروقت اور قوت کے ساتھ ایکشن بھی لے گا۔
جماعت ملک کے ان صالح عناصر سے جو اس صورت حال سے فکر مند ہیں، اپیل کرتی ہے کہ نفرت کی اس آگ کو بجھانے کے لئے حوصلہ مندی کے ساتھ آگے آئیں اور قرار واقعی رول ادا کریں۔سیاسی جماعتیں اگرنفرت کے فروغ کی مخالفت کے دعوے میں کسی درجے میں بھی سچی ہیں تو انہیں اپنے عمل سے اس کا ثبوت دینا ہوگا۔نامناسب بیانات دینے والے وزراءاور ارکان مقننہ کو فوری برطرف کرنا ہوگا۔ جن مذہبی جلسوں اور جلوسوں میں اشتعال انگیز تقریریں ہوتی ہیں یا گانے گائے جاتے ہیں ان پر سخت کاروائی کرنی ہوگی اور تشدد کی ہر چھوٹی بڑی سرگرمی کی حکومت کی جانب سے سخت کاروائی کے علاوہ ان کی عوامی سطح پر فوری سخت مذمت کو ضروری سمجھنا ہوگا۔ نفرت و فرقہ پرستی کی روک تھام میں جماعت اسلامی ہند ہمیشہ سرگرم رہی ہے۔ یہ اجلاس ملک کے تمام انصاف پسند لوگوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس معاملے میں جماعت کے ساتھ تعاون کریں۔
ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی منظوری کا مسئلہ:
مجلس نمائندگان کا یہ اجلاس ملک میں ہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی منظوری دئے جانے کے زیر غور معاملہ کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ اس سے قبل 2018 میں دفعہ 377 کو منسوخ کرکے ہم جنسی کے عمل کو قانونی جواز فراہم کیا گیا تھا۔ اب اگلے مرحلے میں ہم جنس شادیوں کی اجازت دینے کا معاملہ زیر غور ہے۔ ہم جنسی کاعمل ایک غیر فطری و غیر اخلاقی عمل ہے۔ اس طرح کے غیر فطری عمل اور اس پر مبنی شادی کو قانونی حیثیت دینا، ہندوستان جیسے مذہبی معاشرہ کے لئے ہرگز بھی مناسب نہیں ہے۔
خاندان سماج کا ایک بنیادی ادارہ ہے جو مرد و عورت کی باہمی شادی اور بچوں کی پیدائش کے ذریعے تشکیل پاتا ہے۔خاندانوں کے استحکام پر قوموں اور سماجوں کا استحکام منحصر ہے۔ ہمارے ملک کی مستحکم خاندانی قدریں اور روایات ساری دنیا کے لیے باعث رشک ہیں۔اس سے قبل لیو ان ریلیشن شپ جیسے عمل کو جائز ٹہراکر بھی خواتین اور بچوں کے مفادات پر ضرب لگائی گئی تھی۔ اس طرح کے پیہم اقدامات خاندانی نظام کی کمزوری بلکہ اس کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنیں گے اور جنسی بے راہ روی کو فروغ حاصل ہوگا۔
جماعت اسلامی ہند ملک کے باضمیر اور باشعور افراد کو آواز دیتی ہے کہ وہ ملک عزیز کو اپنی مضبوط اخلاقی و مذہبی قدروں پر قائم رکھنے کے لئے حتی الوسع کوشش کریں تاکہ جنسی بے راہ روی و جنسی آوارگی کے تمام مظاہر پر سختی سے قابو پایا جاسکے۔
سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی:
جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان کا یہ اجلاس سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والے معاہدے کا خیر مقدم کرتا ہے اوراس کے لیے دونوں ممالک کو مبارکباد دیتے ہوئے یہ امید کرتا ہے کہ ان ممالک کے رشتوں میں آنے والی مثبت تبدیلی مغربی ایشیا کے مسلم ممالک کے مابین امن و امان، بہتر تجارتی تعلقات، معنی خیز باہمی تعاون اور ملی اخوت کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ اجلاس امید کرتا ہے کہ اس معاہدے سے شام اور یمن میں جاری خونریزی اور تباہی کو روکنے میں مدد ملے گی اور عراق، لبنان وغیرہ میں جاری تنازعات کا پائیدار حل بھی ممکن ہوگا۔ اجلاس یہ بھی امید کرتا ہے کہ یہ معاہدہ خطہ میں امریکی و اسرائیلی اثرات کو کم کرنے کا سبب بنے گا جو یہاں کے پیچیدہ مسائل کا سب سے بڑا سبب ہے اور یہ کہ اس سے استعماری طاقتوں کے اُن جنگی، تجارتی اور سیاسی عزائم کو روکنے میں بھی مدد ملے گی جنہوں نے نہ صرف اس علاقے کے لیے بلکہ پورے بر اعظم ایشیا اور دنیا کے تمام ترقی پذیر ملکوں کی آزادی و خود مختاری کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ یہ اجلاس فلسطین خاص طور پر مسجد اقصیٰ، غازہ اور اسرائیلی جیلوں میں تشدد کی مسلسل کاروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ سعودی و ایران معاہدے سے مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف بھی پیش رفت ہوگی۔
اس موقع پرمجلس نمائندگان،اپنے اس اصولی موقف کا اعادہ کرتی ہے کہ ملکوں کے درمیان تعلقات، باہم گفت و شنید اور تعاون و اشتراک کی اساس پر استوار ہونے چا ہئیں۔