جماعت اسلامی کا مالیگاؤں دھماکہ کے ملزمین کی رہائی کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن کا مطالبہ

ماہانہ پریس کانفرنس میں عہدیداران نے تحقیقاتی ایجنسیوں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے ،بہار میں ایس آئی آر اور مختلف ریاستوں میں بنگالی بولنے والوں کے خلاف کاروائیوں پر تشویش کااظہار کیا

نئی دہلی، 02 اگست :

جماعت اسلامی ہند کی جانب سے  آج جامعہ نگر، اوکھلا واقع مرکزی دفتر میں   منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس  کا انعقاد کیا گیا جس میں جماعت کے ذمہ داران نے مالیگاؤں دھماکہ کے ملزمین کو عدالت سے بری کئے جانے کے معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کا مطالبہ کیا۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر ملک معتصم خان اور انجینئر سلیم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی جانب سے ملزمان کو بری کرنے کا معاملہ ثابت کرتا ہے کہ تفتیشی ادارے نے کیس کی صحیح تفتیش نہیں کی اور شواہد کو صحیح طریقے سے اکٹھا نہیں کیا جس کی بنیاد پر عدالت نے عدم ثبوت کی بنا پر ملزمان کو بری کر دیا۔ انہوں نے ریاستی حکومت سے اس کیس کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

جماعت کی سینئر قیادت نے اس موقع پر مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں عدالتی فیصلے سمیت تین دیگر اہم قومی ایشوز پر اظہار خیال کیا۔ بہار میں انتخابی فہرستوں کا متنازعہ "اسپیشل انٹینسیو ریویژن” (ایس آئی آر)، مختلف ریاستوں میں بنگالی زبان بولنے والوں کو ہراساں کئے جانے کا معاملہ سر فہرست رہا۔

میڈیا کو خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے بہار میں الیکشن کمیشن آف انڈیا (ECI) کے تحت جاری   عمل پر سخت تنقید کی اور اسے ’چور دروازے سے این آر سی نافذ کرنے کی کوشش‘ قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ اس عمل سے جمہوریت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "اس پورے عمل میں تقریباً 2.93 کروڑ رائے دہندگان سے ان کی  پیدائش اور والدین کی شہریت سے متعلق دستاویزات طلب کئے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اس عمل نے غریب، اقلیتی اور پناہ گزیں آبادیوں خاص طور پر سیمانچل جیسے پس ماندہ علاقوں کے رہنے والے افراد کو سنگین مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ عمل نہ صرف انتخابی قوانین کی سخت خلاف ورزی ہے بلکہ سپریم کورٹ کی ان ہدایات کو بھی نظر انداز کرتا ہے جس میں شناختی دستاویزات کی فہرست کا دائرہ بڑھانے اور اس میں آدھار، راشن کارڈ وغیرہ کو تسلیم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔

انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اگر الیکشن کمیشن نے غیر جانب داری کا ثبوت نہ دیا تو ادارے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔گراؤنڈ رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے نائب امیر جماعت نے کہا کہ بہار میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں، من مانے اندراجات، غلط پتوں اور ہزاروں ناموں کے غائب ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن اسی روش پر قائم رہا تو اسے جمہوریت کا غیر جانبدار محافظ نہیں بلکہ سیاسی دباؤ کا آلہ کار تصور کیا جائے گا۔پروفیسر سلیم انجینئر نے حکومت اور الیکشن کمشین کے سامنے درج ذیل مطالبات پیش کئے :

  1. بہار میں SIR عمل کو فوری طور پر معطل کیا جائے جب تک کہ کسی آزاد عدالتی یا پارلیمانی کمیٹی کے ذریعےاس کی جانچ نہ کرا لی جائے۔
  2. کسی بھی مزید نظرثانی سے پہلے واضح اور شفاف ہدایات جاری کی جائیں۔
  3. آدھار، EPIC، راشن کارڈ اور مقامی دستاویزات کو متبادل شناخت کے طور پر قبول کیا جائے۔
  4. اس نوعیت کے کسی بھی عمل سے قبل سول سوسائٹی اور مقامی برادریوں کو اعتماد میں لیا جائے۔
  5. ایس آئی آر کے قانونی جواز، مقاصد اور ممکنہ نتائج پر مکمل وضاحت فراہم کی جائے۔

پریس کانفرنس میں مالیگاؤں بم دھماکہ مقدمے میں این آئی اے کورٹ کے حالیہ فیصلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے تمام ملزمان کے بری ہوجانے پر تحقیقاتی ایجنسی کی کارکردگی پراپنے گہرے تحفظات کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح بی جے پی ایم پی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت کو عدالت نے بری کیا ہے اس سے کئی سنگین قسم کے سوال کھڑے ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 17 سال بعد، ابتدائی شواہد  کے باوجود استغاثہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ملک معتصم خان نے تحقیقات کرنے والی ایجنسیوں کے کردار پر سوالات اٹھائے، خاص طور پر 2014 کے بعد جب یہ مقدمہ مہاراشٹر ATS سے لے کر قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA) کو منتقل کر دیا گیا تھا۔انہوں نے 2015 میں خصوصی پبلک پراسیکیوٹر روہنی سالیان کے بیان کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد ان سے کہا گیا کہ "ملزمان کے ساتھ نرمی برتی جائے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ایسی مداخلتیں انصاف اور عوامی اعتماد کو مجروح کرتی ہیں۔ ہمیں پوچھنا ہوگا 17 سال کی مدت میں ایک مضبوط مقدمہ کیوں نہ بن سکا؟ کیا اس فیصلے کو بھی اتنی ہی سنجیدگی سے چیلنج کیا جائے گا جتنی سنجیدگی دیگر مقدمات میں مسلمانوں کے خلاف نظر آتی ہے؟ کیا ایک ملزم کو مقدمہ مکمل ہونے سے پہلے سیاسی پلیٹ فارم دینا انصاف کے تقاضوں کے خلاف نہیں ہے؟

ملک معتصم خان نے حکومت سے درج ذیل مطالبات کئے :

1.مقدمے کے تفتیشی عمل کی آزادانہ عدالتی جانچ کرائی جائے۔

  1. عدالت میں استغاثہ کی ناکامیوں کا احتساب کیا جائے۔
  2. اس کی بھی جانچ کرائی جائے کہ آیا کسی سیاسی یا نظریاتی مداخلت نے مقدمے کی سمت کو متاثر کیا ہے۔

بنگالی بولنے والے پناہ گزینوں خاص طور پر مسلمانوں کو مختلف ریاستوں میں ہراساں کئے جانے پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (APCR) کے سیکرٹری ندیم خان نے کہا کہ یہ مسئلہ اب ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایسے شہری جن کے پاس آدھار اور ووٹر شناختی کارڈ جیسے درست دستاویزات موجود ہیں، انہیں صرف بنگالی بولنے کی بنیاد پر بنگلہ دیشی قرار دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے دہلی کی جھگی بستیوں (J.J. کالونی) کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں پولیس اہلکار کہتے ہیں ’’تم بنگالی بولتے ہو، اس لیے تم بنگلہ دیشی ہو۔” اسی طرح آسام میں غیرقانونی حراست اور سرحد پار نکالے جانے کی اطلاعات پر تشویش ظاہر کی، جہاں مئی 2025 سے اب تک 300 سے زائد افراد، جن میں بزرگ، خواتین اور بچے شامل ہیں، کو ملک بدر کر دیا گیا ہے۔

ندیم خان نے حکومت سے مطالبہ کیا :

  1. بنگالی بولنے والے شہریوں کی تمام غیر قانونی حراستوں اور ملک بدریوں کو فوری طور پر روکا جائے اور قانونی ضابطے کے مطابق عمل کیا جائے۔
  2. اغوا، تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔
  3. سی اے اے جیسے متنازعہ قوانین میں ترمیم یا منسوخی کی جائے اور این آر سی و فارنرز ٹریبیونلز کو غیر امتیازی طریقے سے نافذ کیا جائے۔
  4. غیر قانونی طور پر ملک بدر یا قید کئے گئے خاندانوں کو مناسب معاوضہ دیا جائے اور ان کی بازآبادکاری کی جائے۔
  5. لسانی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قومی سطح پر بیداری اور قانونی امداد کی مہم شروع کی جائے۔
  6. آئینی تحفظات کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے اور نفرت انگیز تقاریر اور فرقہ وارانہ پولرائزیشن پرسختی سے لگام لگائی جائے ۔

ندیم خان نے مزید کہا کہ ہم سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں اور میڈیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس سنگین مسئلے سے منہ نہ موڑیں۔ یہ صرف بنگالیوں یا مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ بھارت کی روح اور اس کے آئینی اصولوں کا امتحان بھی ہے۔