جب تک نام نہاد گؤ رکشکوں کا شکار مسلمان تھے تو ،پانی لیول پر تھا
آر ین مشرا کی ہلاکت کے بعد کمار وشواس کے ٹوئٹ پر سوشل میڈیا صارفین کی تنقید ،بولنے کے لئے مقتول کے آرین مشرا ہونے کا انتظار کیا
نئی دہلی ،05 ستمبر :۔
ملک میں نام نہاد گؤ رکشکوں کی غنڈہ گردی کے ایک لمبے عرصے سے جاری ہے۔ایسا نہیں ہے کہ یہ’ غنڈے ‘غنڈے اس لئے لکھنا پڑ رہا ہے کہ یہ اپنے کرموں سے کہیں سے بھی ’رکشک‘ نہیں لگتے،2014کے بعد اچانک اگ آئے ہیں بلکہ یہ سلسلہ پہلے سے ہی جاری تھا مگر ہاں مرکز میں بی جے پی کی حکومت کی آمد کے بعد ان کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور پولیس انتظامیہ کی کھلی چھوٹ نے لاٹھی ڈنڈوں کے علاوہ اب بندوق اور گولی چلانے کا حوصلہ فراہم کیا ہے۔
حالیہ دنوں میں مسلسل متعدد واقعات پیش آئے ہیں جس نے ان نام نہاد گؤ رکشکوں کی غنڈہ گردی کو اجاگر کیا ہے۔ہریانہ کے چرخی دادری میں محض گائے کا گوشت کھانے کی شک کی وجہ سے مغربی بنگال کے دو مزدوروں کو بے رحمی سے مارا پیٹا گیا ۔اتنی بے رحمی سے مارا گیا کہ ایک مزدور کی موت ہو گئی اور دوسرا شدید زخمی ہو گیا ۔اسی دن مہاراشٹر کے ممبئی میں کلیان جا رہے ایک 72 سالہ بزرگ شخص کو کچھ غنڈوں نے گائے کا گوشت لے جانے کے شک میں مارا پیٹا گیا ،وہیں فرید آباد میں ہی نا م نہاد گؤ رکشکوں کا ایک اور اندوہناک واقعہ پیش آیا جو سب سے زیادہ موضوع بحث رہا اور اب تک اس پر بات چیت جاری ہے۔وہ ہے گؤ رکشکوں کے ذریعہ گائے اسمگلر کے شبہ میں آرین مشرا نامی ایک بارہویں کے طالب علم کا قتل ۔اس واقعہ کے بعد سماج کا ایک طبقہ بولنے لگا ہے،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہیں احساس ہوا ہے کہ کسی کی جان گئی ہےاور کچھ غلط ہوا ہے۔
آر ین مشرا کے قتل کے بعد اپنے بیانوں کو لے کر سرخیوں میں رہنے والے کمار وشواس کا ایک ٹوئٹ موضوع بحث ہے۔جس میں انہوں نے نام نہاد گؤ رکشکوں کی غنڈہ گردی پر تنقید کی ہے۔پچھلے کچھ برسوں سے کئی ریاستوں میں دلت ،آدیواسیوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو بھیڑ نے اپنا نشانہ بنایا ہے۔دلتوں ، آدیواسیوں کو ان کی ذات کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا جبکہ مسلمانوں کو ان کے مذہب کی وجہ سے مشق ستم بنایاجا رہا ہے۔لیکن کبھی ایسے معاملوں میں کھل کر کمار وشواس کا بیان نہیں آیا ہے۔لیکن جیسے ہی ہریانہ کے فرید آباد میں بارہویں کے طالب علم کو نام نہاد گؤ رکشکوں نے گائے اسمگلر سمجھ کر قتل کیا اور معاملہ مین اسٹریم میڈیا میں آیا فوراً کمار وشواس کا بیان سامنے آگیا۔آرین مشرا کی موت پر کمار وشواس کو اس قدر غصہ آیا کہ انہوں نے یہاں تک لکھ دیا کہ ’ اب تو پانی سر سے اوپر جا رہا ہے۔
اس خبر پر کمار وشواس کے سخت رخ کو دیکھ کر سوشل میڈیا یوزرس ،صحافی اور تمام سماجی کارکنان نے کماروشواس کی جم کر تنقید کی ہے۔سوشل م یڈیا پر ایک صارف نے لکھا کہ ذات کی بات آگے ہی سر گرم ہو گئے، اس سے قبل تک جلدی بولتے نہیں ہیں۔اور تنقید جائز بھی ہے ۔ کیونکہ اس سے قبل گائے کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ کئی وحشیانہ واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔دلت طالب علم کے زریعہ مٹکے سے پانی پی لینے پر قتل تک کیا جا چکا ہے ،دلت کے مونچھ رکھنے،دلت کے گھوڑی چڑھنے پر بوال ہو چکا ہے بلکہ گولی بھی مار دی جاتی رہی ہے۔ ایسے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں لیکن کمار وشواس ایسے معاملے میں کبھی بے باک نہیں ہوئے ۔ ان کی آواز اس وقت نکلی جب پہلی بار نا م نہاد گؤ رکشکوں کی غنڈہ گردی کا شکار ایک اعلیٰ ذات برہمن کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا اورپہلی بار ان کو غصہ اس وقت آیا جب آرین مشرا کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ۔ورنہ اس سے قبل کتنے دردناک اور وحشیانہ سلوک مسلمانوں کے ساتھ صرف شک کی بنیاد پر کیا گیا کبھی ایسی بے باک آواز سنائی نہیں دی ۔کمار وشواس نے ان غنڈوں کے خلاف بولنے کے لئے آرین مشرا کے قتل کا انتظار کیا ۔
کمار وشواس کے سوشل میڈیا پوسٹ پر کئی لوگوں نے جواب دیا ہے سابق صحافی مبارک نے لکھا کہ نام نہاد گؤ رکشکوں کے خلاف سیلیبرٹیز کی آواز مکھر ہونے کے لئے مظلوم کا نام آرین مشرا ہونے کا انتظار کرنا پڑا ۔ ورنہ اب تک تو نیو نارمل چل رہا تھا ۔ کیا سوچا تھا یہ ان گائڈیڈ میزال ایک ہی خیمے پر گرے گی ؟ نفرتی نابینے سب کو لے ڈوبیں گے۔ سب کلیکٹیولی سمجھ جائیں تو بہتر ہے۔صحافی علی شان جعفری نے بھی تنقید کرتے ہوئ لکھا کہ جب اعلیٰ ذات کا ایک فرد ان نا م نہاد دھرم رکشکوں کا شکار ہوا تو عظیم کوی نے قوم کو بتایا کہ اب پانی سر سے اوپر جا رہا ہے۔ایک دسرے سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ باری مشرا یعنی اپنی ذات اور اپنی مذہب کی آئی تو کوی راج غمزدہ ہوگئے ، مگر 2014 سے مسلمانوں کی لنچنگ ہو رہی ہے تو نیند میں تھے ۔ اب کہہ رہے ہیں کہ پانی سر سے اور ہو گیا ہے یعنی جب تک مصیبت مسلمانوںتک محدود ہے تب تک پانی لیول میں سجھا جائے گا۔