جامع مسجد گیان واپی میں مندر کے پختہ ثبوت ملنے کا دعویٰ
اے ایس آئی رپورٹ کے حوالے سے ہندو فریق کے وکیل کا دعویٰ،اے ایس آئی کی جانب سے ابھی آفیشیل بیان نہیں آیا
نئی دہلی،26جنوری :۔
بنارس میں واقع جامع مسجد گیان واپی کے سلسلے میں بھی معاملہ اسی جانب بڑھ رہا ہے جس کے خدشات پہلے سے ماہرین کی جانب سے کئے جاتے رہے ہیں۔ابتدا ہی سے گیان واپی مسجد کے معاملے میں کورٹ کی سماعت اور فیصلے ہندو فریق کی منشا کے مطابق ہی سامنے آتے رہے ہیں۔سروے رپورٹ میں نتائج بھی ہندو فریق کے مطابق ہی آیا ہےجیسا کہ دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گیانواپی معاملے میں اے ایس آئی رپورٹ کو لے کر ہندو فریق کی جانب سےبڑا دعویٰ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین نے جمعرات کی دیر رات دعویٰ کیا ہے کہ گیانواپی جس جگہ واقع ہے وہاں مندر کی موجودگی کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ وشنو جین نے کہا ہے کہ مغربی دیوار ثابت کرتی ہے کہ مسجد ایک ہندو مندر کا حصہ ہے۔ وکیل نے کہا کہ مسجد 17ویں صدی میں ایک ہندو مندر کو گرانے کے بعد تعمیر کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسجد سے پہلے اس جگہ ایک ہندو مندر موجود تھا۔ تاہم اے ایس آئی کی جانب سے ابھی تک سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا گیا ہے۔
وشنو جین نے دعویٰ کیا کہ مسجد کی تعمیر کے لیے مندر کے ستونوں کا استعمال کیا گیا تھا۔ تہہ خانے S2 میں ہندو دیوی دیوتاؤں کے مجسمے مٹی کے نیچے دبے ہوئے پائے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 32 ایسی جگہیں ہیں جن کا تعلق پرانے ہندو مندروں سے ہے۔ دیواروں پر دیوناگری، گرنتھا، تیلگو اور کنڑ رسم الخط دکھائی دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ وارانسی ڈسٹرکٹ کورٹ نے بدھ کے روز گیانواپی مسجد کمپلیکس کی سروے رپورٹ تمام فریقوں کو سونپنے کا حکم دیا تھا۔ اس دوران مسلم فریق نے ڈسٹرکٹ جج کے سامنے مطالبہ کیاتھا کہ سروے کی رپورٹ صرف فریقین کے پاس رہے اور اسے عام نہ کیا جائے۔ عدالتی حکم کے بعد رپورٹ کی کاپی وکیل وشنو شنکر جین کو دی گئی ہے۔