جامع تعلیم فراہم کرنے کے لیے مدارس ‘نااہل‘ ،سپریم کورٹ میں این پی سی آر کا دعوی
نئی دہلی،12 ستمبر :۔
نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کا کام یوں تو بچوں کے تحفظ اور ان کی سیکورٹی کا ہے مگر ان دنوں این پی سی آر کی پوری توجہ صرف مدارس کے خلاف کارروائیوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں ۔این سی پی سی آر نے مدارس کے تعلق سے سپریم کورٹ کو بتایا کہ مدارس تعلیم دینے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ وہ غیر معقول کام کرتے ہیں۔این سی پی سی آر نے کہا کہ مدارس مذہب کے تناظر میں بہت زیادہ کام کرتے ہیں، بچے کے بنیادی تعلیم کے حق ، آئینی مینڈیٹ، تعلیم کا حق (آر ٹی ای) اور جووینائل جسٹس ایکٹ، 2015 کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
نئی دہلی نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس این سی پی سی آر نے ‘اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004’ کو منسوخ کرنے کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اپنا یہ بیان داخل کیا، جس میں مدرسہ کی تعلیم کو نامناسب قرار دیا ہے۔
NCPCR نے سپریم کورٹ میں مدارس کے ذریعے دی جانے والی تعلیم کے معیار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحریری دلائل پیش کیے ہیں۔
واضح رہے کہ 22 مارچ کو الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ یہ ایکٹ سیکولرازم کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ سیکولرازم آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ مدارس میں زیر تعلیم طلباء کو فوری طور پر بنیادی تعلیمی نظام میں شامل کیا جائے۔
لائیو لا کے مطابق کمیشن نے کہا کہ چونکہ مدارس کو حق تعلیم ایکٹ 2009 کے دائرہ کار سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، اس لیے وہاں پڑھنے والے تمام بچے نہ صرف اسکولوں میں رسمی تعلیم سے محروم ہیں بلکہ آر ٹی ای ایکٹ کے تحت ملنے والے فوائد سے بھی محروم ہیں۔ وہ مڈ ڈے میل، یونیفارم، تربیت یافتہ اساتذہ وغیرہ جیسے فوائد سے بھی محروم ہیں۔
اپریل میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی تھی اور کہا تھا کہ ہائی کورٹ نے پہلی نظر میں ایکٹ کی غلط تشریح کی ہے۔ اس فیصلے سے تقریباً 17 لاکھ طلبہ متاثر ہوں گے۔
این سی پی سی آر نے کہا کہ مدارس مناسب نصاب، اساتذہ کی کمی اور فنڈنگ میں غیر شفافیت کے بغیر تعلیم کے لیے ایک جامع ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔این سی پی سی آر نے کہا، ’’مدارس میں نگرانی کے لیے کمیٹی کی کمی ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کی ترقی کے بارے میں معلومات سے محروم رہتے ہیں۔‘‘اس نے مزید کہا”بہت سے بچے مدارس میں جاتے ہیں جہاں وہ قومی دھارے کے تعلیمی نظام سے واقفیت کی کمی ہوتی ہے اور مذہبی تعلیم پر زیادہ زور ہوتا ہے ۔
اس کے علاوہ این سی پی سی آر نے کہا کہ بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن کو اکیڈمک اتھارٹی نہیں سمجھا جانا چاہئے کیونکہ یہ محض ایک ادارہ ہے جس کے پاس صرف امتحانات منعقد کرنے کا اختیار ہے۔ این پی سی آر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ”بچوں کو مسلمان کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کا ماننے سے روکنا جووینائل جسٹس ایکٹ 2015 (جے جے ایکٹ 2015) کے سیکشن 75 کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔ گرانٹس کے ذریعے نہ صرف بچوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے بلکہ جووینائل جسٹس ایکٹ 2015 کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے ۔
5 اپریل کو سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس حکم پر روک لگا دی تھی جس نے اتر پردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیر آئینی اور سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے کہا تھا کہ وہ مدارس کے طلباء کو باقاعدہ اسکولوں میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے اقدامات کرے، اور مزید کہا کہ اگر ضرورت ہو تو نئے اسکول قائم کیے جائیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ 6 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو تسلیم شدہ اداروں میں داخلے کے بغیر نہ چھوڑا جائے۔