جامعہ کے طلبا پر پولیس کے وحشیانہ ایکشن کے خلاف آدھی رات کو پولیس ہیڈکوارٹر پر زبردست احتجاج

جامعہ میں پولیس کی بربرانہ کارروائی کے خلاف شہری حقوق کے کارکنان اور عوام کا سخت رد عمل

نئی دلی: متنازعہ شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا پر پولیس کی بربریت کے خلاف اتوار کو دیر رات گئے تک مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا سمیت سیکڑوں شہریوں نے دلی پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر مظاہرہ کیا۔
سوشل میڈیا پر پولیس کے وحشیانہ تشدد اور حد سے زیادہ طاقت کے استعمال کے مناظر سامنے آنے پر جے این یو کی طلبا یونین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے دلی کے عوام سے اپیل کی کہ وہ جامعہ کیمپس سے پولیس فورس کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے کی خاطر دلی پولیس ہیڈ کوارٹر میں جمع ہوں، اور زیر حراست طلبا کی رہائی کی مانگ کریں۔ ساڑھے نو بجے کے قریب بہت سے لوگ موقع پر جمع ہوگئے اور ایک گھنٹے کے اندر اس ہجوم نے جم غفیر کی شکل اختیار کرلی جن میں جے این یو اور دلی یونیورسٹی کے طلبا سمیت سیکڑوں سو افراد نصف شب کے بعد بھی احتجاج کرتے دیکھے گئے۔
جے این یو طلبا یونین نے اپنے ہینڈل سے شام 8 بجے کے قریب ٹویٹ کیا: "جامعہ ملیہ کے لیے ہنگامی احتجاج ۔ دلی کے تمام طلبا اور شہریوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ آج رات 9 بجے دلی پولیس ہیڈ کوارٹر، آئی ٹی او کے پاس جمع ہوں تاکہ جامعہ میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی ختم ہو۔ جے این یو کے طلبا سے گزارش ہے کہ وہ فوری طور پر شام 8 بج کر 30 منٹ پر سابرمتی ڈھابےپر اکٹھا ہوجائیں” ۔
دلی پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر مظاہرین پولیس کارروائی کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔ وہ کیمپس سے پولیس کی دستبرداری اور زیر حراست طلبا کی رہائی کا مطالبہ کررہے تھے۔
جامعہ میں اتوار کی سہ پہر کو کیا ہوا تھا؟
جامعہ یونیورسٹی کے قریب کچھ سرکاری بسوں کو نذر آتش کرنے کے بعد پولیس اور سی آر پی ایف اہل کاروں نے جامعہ کے ہاسٹل میں گھس کر وہاں طلبا پر وحشیانہ حملہ کیا۔ سکیورٹی اہل کاروں نے لائبریری میں بھی آنسو گیس کے شیل فائر کیے جہاں طلبا موجود تھے ۔ پولیس لائبریری کے شیشے اور فرنیچر توڑ دیا ۔ کئی طلبا زخمی ہوئے اور متعدد کو پولیس نے حراست میں لے لیا اور انہیں قریبی پولیس اسٹیشنوں میں لے جایا گیا ۔
نیو فرینڈز کالونی میں ماتا مندر کے قریب تین بسوں سمیت متعدد گاڑیاں بھی جل گئیں۔ اس سلسلے میں مختلف بیانات سامنے آرہے ہیں۔ اگرچہ پولیس کا دعوی ہے کہ یہ مظاہرین کا کام تھا ، لیکن مظاہروں میں شریک لوگوں نے کہا کہ وہ املاک کونقصان پہنچانے میں شامل نہیں ہیں۔ بعض ویڈیو سامنے آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خود پولیس اہلکاروں نے بسوں پر آتش گیر مادہ ڈالا اور پھر مظاہرین کو بدنام کرنے کے لیے گاڑیوں کو نذر آتش کردیا۔

انسانی حقوق کے کارکنان طلبا کی رہائی کے لیے تھانے پہنچے:
جب یہ خبر پھیلی کہ جامعہ کے درجنوں طلبا کو حراست میں لیا گیا ہے اور انہیں کالکاجی پولیس اسٹیشن لے جایا گیا ہے تو انسانی حقوق کے معروف کارکنان ہرش مندر اور ایڈوکیٹ کبیر علی ضیا چودھری تھانے پہنچے۔ لیکن گھنٹوں انتظار کے بعد بھی پولیس نے ان کو طلبا کو جانے نہیں دیا ۔ 28 طلبا کو ان کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان میں سے بعض نے بتایا کہ پولیس نے تھانے لے جاتے ہوئے وینوں میں بھی ان کو زدوکوب کیا تھا۔
امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے اسپتال میں زیر علاج طلبا سے ملاقاتیں کیں۔ دلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان این ایف سی تھانے پہنچے۔ لیکن گھنٹوں انتظار کے بعد بھی پولیس نے ان سے ملاقات نہیں کی۔