’تم ثابت کرو کہ ہندوستانی ہو‘
پونے میں کارگل جنگ میں حصہ لینے والے ریٹائرڈ فوجی کے اہل خانہ پرآدھی رات کو پولیس کے ساتھ ہندو تو گروپ کا حملہ،شہریت کے ثبوت کا مطالبہ کیا گیا

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی ،30 جولائی :
بنگلہ دیشی اور روہنگیا کے نام پر ملک میں مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت کا ماحول پیدا کیا ہے کہ ہندوتو شدت پسند وں کا گروپ ہندوستان کے مسلمانوں پر نہ صرف شک کرنے لگا ہے بلکہ ملک کے لئے جنگ لڑنے والوں کے خاندان کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت میں ڈوبا ہوا یہ گروپ کسی بھی حد تک جا رہا ہے ۔ تازہ معاملہ مہاراشٹر کے پونے کا ہے جہاں ایک ریٹائرڈ کارگل جنگ کے تجربہ کار کے اہل خانہ کےگھر پر ہندوتوشدت پسندوں کا گروپ آدھی رات کو حملہ کر دیتا ہے اور ان سے ہندوستانی شہریت کا ثبوت کا مطالبہ کرتا ہے ۔اور اس پر مزید پولیس بھی ان کے دباؤ میں کام کر رہی ہے اور ایک فوجی کے اہل خانہ سے ثبوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ شب پونے میں کارگل جنگ میں حصہ لینے والے ایک ریٹائرڈ فوجی کے اہل خانہ پر آدھی رات کو ہندوتو شدت پسندوں کا 80 افراد پر مشتمل ایک گروپ حملہ کر دیتا ہے ۔ انہیں ہراساں کیا گیا اور ان کی ہندوستانی شہریت ثابت کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ یہ واقعہ چندن نگر میں پیش آیا، جہاں 1999 کی کارگل جنگ میں لڑنے والے 58 سالہ حکیم الدین شیخ کا خاندان رہتا ہے۔
منگل کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، خاندان کے ارکان نے کہا کہ گروپ نے شناختی دستاویزات دیکھنے کا مطالبہ کیا اور آدھی رات کے قریب خاندان کے مرد ارکان کو تھانے لے جایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ہمیں دھمکی دی کہ اگر ہم صبح 3 بجے تک اپنی شہریت ثابت نہیں کر سکے تو وہ ہمیں بنگلہ دیشی یا روہنگیا قرار دیں گے۔انہوں نے ایک چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آدھی رات کو ہندوتو شدت پسندوں کا گروپ ہمارے گھر میں گھس گیا اور ہم سے ہمارے آدھار کارڈ مانگے گئے بچوں کو بیدار کر کے ان سے آدھار کارڈ مانگا گیاخواتین کو پریشان کیا گیا ۔ہم سے دھکا مکی کی گئی اور ہمیں رات میں ہی پولیس اسٹیشن لے جایا گیا ۔ انہوں نے بتایا کہا س دوران ہندوتو شدت پسندوں کو گروپ جے شری رام کے نعرے لگاتا رہا۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارا خاندان پشت در پشت ملک کی فوج میں خدمات انجام دیتا رہا ہے ۔269 انجینئر رجمنٹ میں 1984 سے 2000 کے درمیان ہندوستانی فوج میں 16 سال تک خدمات انجام دینے والے حکیم الدین نے کہا، "میں نے کارگل کی جنگ لڑی تھی۔ میرا خاندان کئی دہائیوں سے اس ملک میں مقیم ہے، ہم سے یہ ثابت کرنے کے لیے کیوں کہا جا رہا ہے کہ ہمارا تعلق یہاں ہے؟”
واضح رہے کہ یہ خاندان اصل میں اتر پردیش کے پرتاپ گڑھ سے ہے اور 1960 سے پونے میں مقیم ہے۔ جبکہ حکیم الدین 2013 میں اپنے آبائی شہر واپس چلے گئے ، ان کے بھائی، بھتیجے اور ان کے خاندان پونے میں ہی رہتے ہیں۔
حکیم الدین کے بھائی ارشاد شیخ نے کہا، "نعرے لگاتے ہوئے مرد آئے اور ہمارے دروازے پر لات ماری، کاغذات کا مطالبہ کیا۔ وہاں ایک سادہ لباس اہلکار معاملات کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اور قریب ہی ایک پولیس وین کھڑی تھی۔۔ اس خاندان میں فوج کے دو اور سابق فوجی شامل ہیں – شیخ نعیم الدین اور شیخ محمد سلیم – جنہوں نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں حصہ لیا۔
ارشاد نے سوال کیا، "کیا فوجیوں کے اہل خانہ کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟ کوئی بھی ہمارے دروازے پر دستک دیے اورہمیں یہ ثابت کرنے پر مجبور کہ ہم ہندوستانی شہری ہیں؟
خاندان نے یہ بھی کہا کہ آدھار کارڈ جیسے درست دستاویزات دکھانے کے بعد بھی گروپ نے ان پر یقین کرنے سے انکار کردیا۔ حکیم الدین کے بھتیجے نوشاد نے کہا، ’’انہوں نے ہمارے آدھار کارڈ کا مذاق اڑایا اور انہیں جعلی کہا۔ انہوں نے غنڈوں کی طرح برتاؤ کیا۔”
پولیس ڈپٹی کمشنر سومے منڈے نے کہا کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کے بارے میں ایک اطلاع پر کارروائی کر رہے ہیں۔ "ایک بار جب ہم نے دیکھا کہ دستاویزات درست ہیں، ہم نے انہیں جانے دیا۔ کوئی تیسرا فریق پولیس کے ساتھ نہیں تھا۔ ہمارے پاس ویڈیو ثبوت ہیں۔