تمل ناڈو اسمبلی میں وقف بل کے خلاف قرارداد منظور
تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ اس سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی ہے

نئی دہلی ،27 مارچ :۔
وقف بل کے خلاف ملک بھر میں جاری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام احتجاج کے دوران تمل ناڈو سے ایک اچھی خبر آئی ہے۔ تمل ناڈو اسمبلی نے جمعرات کو مرکز کے مجوزہ وقف ترمیمی بل کے خلاف قرارداد منظور کی۔وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اس دوران تبصرہ کیا کہ یہ بل مسلمانوں کے حقوق کو "تباہ” کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جمعرات کو اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اسٹالن نے کہا کہ یہ بل ریاست کے حقوق کو کمزور کرنے، مسلمانوں کی روایات میں خلل ڈالنے اور مرکزی کنٹرول کو نافذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ یہ ترمیم وقف بورڈ کے اختیارات کو روک دے گی، جس سے حکومت کو مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرنا آسان ہو جائے گا۔
اسٹالن نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت ایسی دفعات داخل کر رہی ہے جو ریاستی حقوق، ثقافت اور روایات کے خلاف ہیں۔ "ہندوستان متنوع زبانوں، روایات اور عقائد کا ملک ہے، پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ یہ بل بعض کمیونٹیز کو نشانہ بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔
تملناڈو حکومت کے اس اقدام کے بعد اب سب کی نظریں مرکزی حکومت کی اتحادی جماعت اور خود کو سیکولر کہنے والی سیاسی پارٹی تیلگو دیشم اور بہار کی جے ڈی یو رہنما نتیش کمار پر ٹکی ہوئی ہیں بلکہ این ڈی اے کے اتحادیوں بالخصوص بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرابابو نائیڈو پر دباؤ ڈالا ہے۔ کیا اب ان دونوں لیڈروں پر اپنی اپنی ریاستوں میں اسی طرح کے اقدامات کرنے کا دباؤ بڑھے گا؟
تمل ناڈو اسمبلی کی یہ قرارداد مرکزی حکومت سے وقف بل کو مکمل طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اپنے خطاب میں اسٹالن نے کہا کہ یہ بل مسلم کمیونٹی کی خود مختاری کو مجروح کرتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ آرٹیکل مذہبی گروہوں کو اپنے معاملات خود سنبھالنے کا حق دیتا ہے۔ اسٹالن کے اس اقدام سے نہ صرف تمل ناڈو میں ڈی ایم کے حکومت کی اقلیت حامی امیج مضبوط ہوتی ہے بلکہ غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں کے لیے بھی ایک مثال قائم ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس سے دوسری ریاستوں کو بھی اسی طرح کے اقدامات کرنے کی ترغیب ملے گی، خاص طور پر وہ جہاں اپوزیشن پارٹیاں اور بی جے پی کے اتحادی اقتدار میں ہیں۔ این ڈی اے میں بی جے پی کی کلیدی حلیف، نتیش کمار کی جے ڈی یو اور چندرابابو نائیڈو کی ٹی ڈی پی، اس وقت مرکزی حکومت کے لیے اہم ہیں، کیونکہ بی جے پی کے پاس لوک سبھا میں قطعی اکثریت نہیں ہے۔ بہار اور آندھرا پردیش دونوں میں کافی مسلم آبادی ہے۔ بہار میں تقریباً 17% اور آندھرا پردیش میں تقریباً 9.5%۔ یہ دونوں پارٹیاں ایک عرصے سے زیادہ تر مسلم ووٹ بینک پر منحصر ہیں اور ان کی سیاسی کامیابی کی بڑی وجہ ان کی پارٹیوں کی سیکولر شبیہ رہی ہے۔
تمل ناڈو کے اس قدم کے بعد اب مسلم تنظیمیں اور اپوزیشن پارٹیاں نتیش اور نائیڈو پر دباؤ بڑھا سکتی ہیں تاکہ وہ بھی وقف بل کے خلاف کھل کر سامنے آئیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ پہلے ہی ان دونوں لیڈروں سے اس بل کی مخالفت کرنے کی اپیل کی ہے۔ بہار میں نتیش کمار کے دعوت افطار کا بائیکاٹ بھی اسی کا حصہ تھا۔