تلنگانہ: ملی قائدین نے   وقف ترمیمی بل 2024 کو متحدہ طور پر نا قابل قبول قرار دیا

تلنگانہ حکومت کے مشیر محمد علی شبیر کے ذریعہ بلائی گئی میٹنگ میں 50 سے زائد  ممتا مسلم قائدین نے بل کی مخالفت کی

نئی دہلی حیدرآباد، 20 اگست:۔

مرکزی حکومت کی جانب سے پیش کئےگئے وقف ترمیمی بل کے خلاف ملک بھر کے مسلمانوں میں تشویش اور ناراضگی ہے۔جہاں جمعیۃ علمائے ہند،جماعت اسلامی ہند اور دیگر ملی تنظیموں نے یکسر طور پر مسترد کر دیا ہے وہیں تلنگانہ حیدرآباد کے مسلمانوں نے بھی اس بل کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق تلنگانہ کے مسلم قائدین نے متفقہ طور پر مجوزہ وقف ترمیمی بل کو مسترد کردیا ہے  ۔ تلنگانہ حکومت کے مشیر محمد علی شبیر کے ذریعہ بلائی گئی میٹنگ میں 50 سے زیادہ ممتاز مسلم قائدین نے بل کی مخالفت کی اور اسے مسترد کرنے کا فیصلہ کیا۔

وقف ترمیمی بل   کی حکمت عملی اور مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو دی جانے والی نمائندگی پر تبادلہ خیال کے لیے بلائے گئے اجلاس میں سرکردہ مذہبی اور سماجی تنظیموں کے نمائندوں، تمام اقلیتی اداروں کے چیئرپرسن، قانونی ماہرین اور دیگر نامور شخصیات نے شرکت کی۔

محمد علی شبیر نے شرکاء سے کہا کہ وہ  وزیر اعلیٰ اے ریونت ریڈی کو اپنی تشویشات سے آگاہ کریں گے اور ریاستی حکومت سے جے پی سی میں سرکاری نمائندگی کرنے کی اپیل کریں گے۔ انہوں نے بل پر مختلف تنظیموں اور افراد سے آراء اکٹھا کرنے کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا تاکہ جے پی سی کو ایک جامع  آرا جمع کرانے کی تیاری کی جا سکے۔

تلنگانہ وقف بورڈ کے چیئرمین سید عظمت اللہ حسینی نے کہا کہ 29 اگست کو ایک خصوصی اجلاس بل میں ترمیم کے خلاف قرارداد پاس کرے گا۔

اجلاس میں بل کے خلاف سیاسی اور قانونی مہم چلانے کا مطالبہ کیا گیا اور مسیحی برادری سے تعاون طلب کیا گیا۔جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ مستقبل میں بھی ایسے ہی خطرات کا سامنا  انہیں بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔شرکاء نے الزام لگایا کہ مرکز وقف کے ادارے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دلیل دی کہ مجوزہ ترامیم سے ہندوستان بھر میں وقف اداروں کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔مسلم قائدین نے وقف املاک سے متعلق جاری قانونی تنازعات پر بل کے ممکنہ نتائج پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ بل ضلع کلکٹروں کو بھی غیر ضروری طاقت دیتا ہے، جو ہمیشہ غیر جانبداری سے کام نہیں کر سکتے۔شرکا نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس طرح کی ترمیم کا مقصد  آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل رائے دہندگان کو پولرائز کرنا ہے۔

محمد علی شبیر نے قائد حزب اختلاف راہل گاندھی کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی کوششوں کے لیے اپوزیشن کی قیادت میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت کو اس بل کو جے پی سی کو بھیجنے پر مجبور کیا۔

اجلاس میں وقف بل کی مختلف متنازع شقوں اور وقف کے ادارے پر ان کے اثرات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انہوں نے اس بل کو وقف املاک کے کنٹرول، انتظامیہ اور انتظام میں مداخلت کرکے ملک بھر میں وقف اداروں کو تباہ کرنے کی سازش قرار دیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ بی جے پی زیرقیادت حکومت وقف اداروں کے روزمرہ کے معاملات پر اپنا کنٹرول بڑھا کر، وقف سروے کمیشن، وقف ٹربیونلز اور وقف بورڈ کو کمزور کر کے شریعت میں مداخلت کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ان کے تمام اختیارات  کو ضلع کلکٹرکے سپرد کر رہے ہیں۔

اس میٹنگ میں امیر جامعہ نظامیہ مفتی خلیل احمد، مولانا حسام الدین سائیں جعفر پاشاہ، جمعیۃ علماء کے صدر مفتی غیاث رحمانی، تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی کے ورکنگ صدر محمد اظہر الدین، احسن بن محمد الہیومومی (امام، شاہی مسجد)، مفتی حفیظ ، سید صادق محی الدین (متحدہ مسلم فورم)، مفتی محمود زبیر (جمعیت علماء ٹی جی)، شعیب احمد خان (جماعت اسلامی)، عمر عابدین ،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، ایم ایل سی عامر علی خان، سی پی آئی لیڈر عزیز پاشا اور دیگرمعزز شخصیات موجود تھیں۔

(بشکریہ :ریڈینس ویکلی ،انگریزی)