تلنگانہ:میدک ٹاؤن میں شدت پسندوں کا حملہ منصوبہ بند سازش کا حصہ
تلنگانہ کی مسلم تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی ریاست گیر احتجاج کی اپیل،پولیس اور انتظامیہ کی فوری کارروائی نہ کرنے پرناراضگی اور اظہار افسوس
حیدرآباد،نئی دہلی ،17 جون :۔
عید الاضحیٰ کے موقع پر ہندو شدت پسندوں کے ذریعہ مسلمانوں پر حملےکے خلاف ملک بھر کے مسلمانوں میں ناراضگی ہے۔پولیس اور انتظامیہ کی خاموشی مسلمانوں کے اندر پھیلی ناراضگی کی ایک وجہ ہے ۔اس ظلم و زیادتی کے خلاف تلنگانہ کی مسلم تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جے اے سی) نے ریاست گیر احتجاج کی کال دی ہے۔تلنگانہ بھر کے مسلمانوں سے عید کی نماز کے دوران خاموشی اختیار کرنے کے لیے بطور احتجاج سیاہ بیجز پہننے کی اپیل کی گئی ۔
رپورٹ کے مطابق کمیٹی نے تمام اضلاع کے عہدیداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ احتجاج کے دوران امن کو یقینی بنائیں۔ تنظیم کے قائدین نے سب سے زیادہ پولیس کی خاموشی پر سوال کھڑے کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ پولیس خاموش بیٹھی رہی اور میدک میں تین گھنٹے تک ہندو شدت پسندوں کا ننگا ناچ جاری رہا ۔
انہوں نے تشدد کو روکنے میں پولیس کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔یہ معلوم ہے کہ آر ایس ایس نے واقعہ کے دن پہلے میدک ٹاؤن میں فرضی ویڈیو اور تصاویر پھیلائی۔ شام کو انہوں نے مسلمانوں کے ہوٹلوں، دکانوں اور دیگر اداروں پر حملہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معلوم ہے کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور کانگریس حکومت اس سلسلے میں چوکس نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے مزید واقعات ہونے کے امکانات ہیں اور بی جے پی صرف اس طرح کی کشیدگی کو ہوا دے کر اپنی طاقت بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کمیٹی نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگ کوئی تنظیم گزشتہ ایک ہفتہ سے تلنگانہ میں بقرعید کے تہوار کے دوران فسادات کی سازش کر رہی تھی تو ریاستی حکومت اسے روکنے میں ناکام رہی ہے۔
واضح رہے کہ عید سے محض دو دن قبل ہفتہ کو میدک ٹاون میں واقع دینی مدرسہ منہاج العلوم کے انتظامیہ نے عیدالاضحی کے موقع پر ذبح کرنے کیلئے بڑے جانور کی خریداری کی تھی۔ بڑے جانور کی مدرسہ منتقلی کے موقع پر کشیدگی پیدا ہوگئی اور مقامی ہندوتوا تنظیموں نے ہنگامی آرائی اور گڑبڑ شروع کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ بڑے جانور کو گئوشالہ منتقل کیا جائے۔ مقامی افراد کی مداخلت کے بعد ہندوتوا تنظیموں کے کارکن واپس ہوگئے ۔
لیکن پھر ایک گھنٹہ بعد تقریباً500 کی تعداد میں جلوس کی شکل میں نعرے لگاتے ہوئے پہنچے اور مدرسہ پر حملہ کردیا۔ مدرسہ کے اندر اور باہر موجود افراد کو لاٹھیوں سے حملہ کرتے ہوئے زخمی کردیا گیا جنہیں مقامی اسپتال میں علاج کیلئے داخل کیا گیا۔ ہندوتوا تنظیموں کے کارکنوں نے اس ہاسپٹل پر حملہ کیا جہاں زخمیوں کا علاج جاری تھا۔ ہاسپٹل میں داخل ہوکر زخمیوں کو مار پیٹ کی گئی، ہاسپٹل پر سنگباری کی گئی اور وہاں موجود گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔حملے کے دوران ہجوم جے شری رام اور جے گؤ ماتا کے نعرے لگاتا رہا ۔زخمیوں کے مطابق اقلیتوں کو منصوبہ بند انداز میں نشانہ بنانے کیلئے یہ کارروائی کی گئی۔ مدرسہ اور مقامی افراد کو منصوبہ بند طریقہ سے نشانہ بنایا گیا۔ شدت پسندوں کی یہ کارروائی تین گھنٹے تک جاری رہی مگر پولیس کی جانب سے کوئی خاطر خواہ کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔