تلنگانہ:مسلم تنظیموں کی سیاسی افطار پارٹیوں میں خطیر رقم خرچ کرنے پر حکومت کی سخت تنقید

  اقلیتی فلاحی بجٹ سے 70 کروڑ افطار پارٹی پر خرچ کئے جانے  کےمعاملے پر مسلم تنظیموں اور سرکردہ شخصیات نے ریونت ریڈی حکومت پر بر ہمی کا اظہار کیا

دعوت ویب ڈیسک

نئی دہلی ،24 مارچ :۔

تلنگانہ حکومت کی طرف سے اقلیتوں کے فلاحی بجٹ میں سے افطار پارٹی پر 70 کروڑ روپئے خرچ کئے جانے پر ریاست کی مسلم تنظیموں اور سرکردہ شخصیتوں نے حکومت پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ افطار کے نام پر خرچ کی جانے والی خطیر رقم کو مسلمانوں کی فلاحی اور تعلیمی اسکیموں پر خرچ کیا جانا چاہئے۔اس طرح کی افطار پارٹی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔مسلم تنظیموں نے اس طرح کی سیاسی افطار پارٹیوں سے دور رہنے کی اپیل بھی کی ہے۔ اس ضمن میں اسٹیٹ مائنارٹی کمیشن کے سابق چئیر مین عابد رسول خان نے ریاست کے وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی کو ایک خط لکھ کر افطار پارٹی کے نام پر 70 کروڑ کی خطیر رقم خرچ کرنے پر سخت اعتراض ظاہر کیا ہے ۔

انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ہم اس قدر بڑی رقم کو ایک ایسی تقریب پر خرچ کرنے کے خلاف ہیں جس کی ہمارے مذہب میں کوئی حیثیت یا اہمیت نہیں اور نہ ہی اس سے معاشرے کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ عابد رسول خان نے وزیر اعلیٰ ریونتھ ریڈی کو یہ مشورہ بھی دیا کہ اگر یہ 70 کروڑ روپے مسلم کمیونٹی کے لیے ایک میڈیکل اور فارمیسی کالج کے قیام یا کسی مناسب تعلیمی پروگرام پر خرچ کئے جاتے تو آپ کا یہ فیصلہ اقلیتی فرقے کے لوگ ہمیشہ یاد رکھتے ۔کئی عوامی تنظیموں نے بھی ریونتھ ریڈی حکومت کے اس اقدام پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔  تلنگانہ کی سماجی تنظیم ’یونائٹڈ سٹیزنس فورم ‘ نے اقلیتی بجٹ سے افطار پارٹی منعقد کرنے کے حکومت کے فیصلے کو اقلیتوں کے مفاد کے خلاف بتایا ہے ۔ تنظیم کے صدر ایم مقبول احمد اپنے ایک بیان میں  کہا ہے کہ ہم وزیر اعلیٰ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان افطار پارٹیوں پر خرچ کی جانے والی رقم کو مسلمانوں کے حقیقی مسائل حل کرنے میں خرچ کریں تاکہ ان کی زندگی میں بہتری آسکے۔

بیان میں مسلمانوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس طرح کے سرکاری افطار پارٹیوں سے دوری بنائیں ۔مقبول احمد نے یہ بھی کہا کہ ہم مسلم برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسی سیاسی رنگ میں رنگی ہوئی، تشہیری اور مارکیٹنگ کی نیت سے منعقد کی جانے والی افطار پارٹیوں کا بائیکاٹ کریں اور منتظمین سے مطالبہ کریں کہ اگر وہ واقعی ہماری بھلائی چاہتے ہیں تو  پہلے ہمارے حقیقی مسائل کو حل کریں۔ بیان میں کہا گیا کہ  نہ تو ان افطار پارٹیوں سے مسلم معاشرے کے حقیقی مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی مسلمانوں کو اس سے کوئی فائدہ پہنچے گا۔ اس کے بر عکس فرقہ پرست سیاستدان اسے مسلمانوں کی خوشامد (appeasement) کا نام دے کر مزید نفرت پھیلانے کا موقع حاصل کر لیں گے۔ہم مسلم علماء سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے پر توجہ دیں اور وزیراعلیٰ سے درخواست کریں کہ وہ اس طرح کی افطار پارٹیوں کو منسوخ کریں اور اس رقم کو اقلیتوں کی ترقیاتی کاموں میں صرف کریں۔ تنظیم کہا کہ  اہم بات یہ ہے کہ یہ فنڈ تمام اقلیتوں کے لیے مختص ہے اور اس میں سے 70 کروڑ روپے صرف افطار پر خرچ کرنا دیگر اقلیتوں کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔

ریاست کی معروف سماجی کارکن، آر ٹی آئی کارکن اور انوائرمنٹل ایکٹیوسٹ ڈاکٹر لبنیٰ ثروت نے افطار پارٹی جیسے پروگرام پر مائنارٹی ویلفئیر بجٹ سے 70 کروڑ روپئے خرچ کئے جانے پر ریونتھ ریڈی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ افطار پارٹی پر کروڑوں روپئے خرچ کرنا ایک کھلی ہوئی مالی بدعنوانی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی افطار پارٹی اسلامی اصولوں کے خلاف ہے ۔ یہ ایک طرح کا دکھاوا ہے جو حکومت اپنے سیاسی فائدے کے لیے کر رہی ہے ۔ لبنیٰ ثروت نے کہا کہ اس طرح کی افطار پارٹی کی شروعات کے سی آر کے زمانے میں ہوئی تھی ۔ریونتھ ریڈی حکومت بھی کے سی آر کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا جتنی رقم افطار پارٹی پر خرچ کی جا رہی ہے اس کا بہتر استعمال اقلیتوں کی فلاحی اسکیموں پر خرچ کرکے کیا جا سکتاتھا ۔لبنیٰ ثروت نے کہا کہ سرکاری افطار پارٹی کے بجائے اس فنڈ کو اقلیتی تعلیمی اداروں اور بچوں کی اسکالر شپ پر خرچ کرنا چاہئے۔

مسلم طلبہ تنظیم ’’ اسٹو ڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا‘ ( ایس آئی او ) نے بھی تلنگانہ حکومت کی اس فضول خرچی پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے ۔ ایس آئی او کے ریاستی صدر  محمد فراز احمد کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تلنگانہ حکومت نے حیدرآباد میں ایک بڑی افطار پارٹی کا انعقاد کیا ہے جس پر مبینہ طور پر 70 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ اگرچہ اسے سدبھاؤنا کی علامت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ حکومت کی ترجیحات پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے، جو مسلم برادری کی طویل مدتی فلاح و بہبود سے متعلق بنیادی مسائل کو نظرانداز کر رہی ہے۔ایس آئی او نے ریونتھ ریڈی حکومت سے سوال کیا کہ "کیا حکومت واقعی مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی استحکام کے لیے پرعزم ہے، یا وہ یہ سمجھتی ہے کہ محض دکھاوے کی سیاست اور علامتی تقریبات جیسے افطار پارٹی کافی ہیں؟

ایس آئی او نے تلنگانہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے وہ حقیقی ترقی اور فلاح و بہبود کو ترجیح دے—تعلیم، روزگار، مالی معاونت، اور دیگر ضروری اقدامات کے ذریعے—تاکہ وقتی اقدامات کے بجائے اقلیتی طبقے  کی حقیقی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔